salaam06.gif

safdar.jpg

Home
Syed Masood Hasan Rizvi Adeeb
Sahir Lucknawi
Safdar Hamadani
Ashoor Kazmi
Mersia
History of Mersia
Contact Us
Mersia Nigari
Adabi Khabrain
Mukhlayseen
Picture Gallery
Soz Khawani
LIVE FROM ROZA E IMAM HUSAIN ALLAHEHISSALAM KARBALA IRAQ
Quli Qutub Shah
Mir Anis
Mirza Dabeer
Josh Malihabadi

Safdar Hamadani  صفدر ھمدانی لندن 

میر انیس ہر عہد کا شاعر

تحریر: صفدر ھمدانی لندن 

انیس دم کا بھروسہ  نہیں  ٹھہر جاؤ

چراغ لیکے کہاں سامنے ہوا کے چلے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خیال  خاطر  احباب   چاہیۓ   ہر  دم

انیس ٹھیس نہ لگ جاۓ آبگینوں کو

خداۓ سخن میر ببر علی انیس کے یہ اور ایسے متعدد اشعار اردو ادب سے واقف ان لوگوں کو بھی یاد ہیں جو شاید تفصیل سے یہ نہ جانتے ہوں کہ انیس اردو ادب کی پر شکوہ عمارت کے ایک بنیادی ستون ہیں اور انکا نام تاریخ اردو ادب کی چوکور میں میر تقی میر/ غالب اور علامہ اقبال کے ساتھ شامل ہے۔ میر انیس کی پیدائش کے حوالے سے دو روایات موجود ہیں ایک جنوری اٹھارہ سو دو کی اور دوسری اٹھارہ سو تین کی تاہم زیادہ تر محققین نے اٹھارہ سو تین ہی کو درست قرار دیا ہے گویا ہر دو روایات کے پس منظر میں انیس دو سو سال سے آسمان ادب پر زوال سے نا آشنا ماہ کامل کی طرح رخشندہ ہیں۔ انیس کی تاریخ وفات پر تمام محققین کا اتفاق ہے اور انکی وفات اٹھارہ سو چوہتر میں بہتر تہتر برس کی عمر میں ہوئ۔ میر انیس اتر پردیش میں فیض آباد کے محلے گلاب باڑی میں پیدا ہوۓ اور اس وقت ھندوستان پر بادشاہ امجد علی شاہ کی حکومت تھی۔ انیس کے والد میر خلیق اور دادا میر حسن مثنوی سحر البیان اور بدر منیر کے خالق اپنے عہد کے معروف شعرا میں شمار ہوتے تھے اور انکے ہی مشورے پر انیس نے غزل گوئ کو خیرباد کہہ کر مرثیہ اور سلام لکھنا شروع کیا۔ دنیاۓ مرثیہ نگاری کے بے تاج بادشاہ میر انیس نے شاعری کی ابتدا غزل گوئ سے ہی کی اور والد کے اس مشورے پر کہ ٌبیٹا غزل کو سلام کرؤٌ انہوں نے  مولانا محمد حسین آزاد کے بقول ایک سعادت مند بیٹے کی طرح غزل کو سلام کیا اور پھر ساری عمر مرثیہ نگاری میں بسر کی۔

عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں

پانچویں پشت ہے شبیر  کی  مداحی میں

دو صدیاں گزر جانے کے باوجود مرثیے میں انیس کا کوئ ثانی نہیں ہو سکا اور انکی اسی عظمت نے انکے دیگر فنی اور ہیتی محاسن کو منظر عام پر نہیں آنے دیا اور پھر ناقدین نے انکی تخلیقات کا اس طرح ناقدانہ جائزہ نہیں لیا جیسے غالب/ میر اور سودا کے کلام کا۔اس کی ایک وجہ مرثیے کو فقط عزائ شاعری تک محدود کر دینا بھی تھا۔انکی مکمل شاعری پر آج تک سواۓ حالی کے موازنہ انیس و دبیر کے کوئ ایسا تنقیدی کام نہیں ہوا جسے واقعی ادبی معیار کا کام قرار دیا جا سکے۔ میرانیس کو اپنی حیات میں بھی شاید اس امر کا اندازہ تھاجو انہوں نے کہا تھا کہ ۔۔۔۔۔۔

حاسد سے نہ کچھ خوف نہ دشمن سے ہے کچھ باک

نا فہم ہے  وہ  چاند   پہ  ڈالے   جو  کوئ  خاک

اس حقیقت سے انکار ناممکن ہے کہ انیس کی مرثیہ نگاری کے متعدد محاسن معجزاتی زمرے میں آتے ہیںـانکے مراثی کی تعداد کے بارے میں بھی مختلف روایات ہیں۔ کچھ محققین نے یہ تعداد ہزاروں میں بتائ ہے تا ہم زیادہ تر کے نزدیک یہ تعداد ایک ہزار اور بارہ سو کے درمیان ہے۔تاریخ نگار بتاتے ہیں کہ وہ اکثر اوقات ایک ہی وقت میں اپنے کاتبوں کو مختلف شہیدوں کی شہادت کے تین تین چار چار مرثیے بھے لکھواتے تھے۔انکے متعدد مراثی ابھی تک غیر مطبوعہ ہیں۔انہوں نے مراثی کے علاوہ بڑی تعداد میں رباعیات/سلام/نوحے اور منقبتیں بھی لکھیں اور اب تک کی تحقیق کے مطابق انکی رباعیات کی تعداد چھ سو کے لگ بھگ ہے اور دیگر اشعار کی تعداد لاکھوں میں ہے۔

رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے

وہ دل میں فروتنی کو جا دیتا ہے

کرتے ہیں تہی مغز ثنا آپ اپنی

جو ظرف کہ خالی ہو صدا دیتا ہے

انیس کی شاعری کا منبع و مرکز کربلا کا واقعہ اور شجاعت و قربانی ہے اور انیس کی زباں کے حسن اور بیاں کی معجز نمائ نے اسے آسمان پر پہنچا دیا ہے۔ کچھ ناقدین نے مرثیے کو انگریزی ادب کی صنف ایپیک کے معیار پر پرکھنے کی کوشش کی ہے جو درست نہیں۔ میر انیس اردو کے واحد شاعر ہیں جنکے مراثی میں بیاں کردہ مناظر کے علاوہ واقعات اور کردار باقاعدہ دیکھے اور محسوس کیۓ جا سکتے ہیں۔ تاریخ مرثیہ نگاری میں یہ حقیقت بھی تحریر ہے کہ میر انیس کا معروف مرثیہ ” آج شبیر پہ کیا عالم تنہائ ہے” جب لکھنؤ سے دلی پہنچا تو نواب مصطفی شیفتہ نے صرف اسکا مھلع سن کر اس طرح داد دی کہ ” میر صاحب نے مکمل مرثیہ کہنے کی کیوں زحمت کی مصرع تو خود ہی ایک مکمل مرثیہ ہے” 

خورشید   چھپا   گرد   اڑی   زلزلہ   آیا

اک ابر سیاہ دشت پر آشوب میں چھایا

پھیلی تھی جہاں دھوپ وہاں ہو گیا سایہ

بجلی کو سیاہی  میں  چمکتا  ہوا  پایا

جو حشر کے آثار ہیں  سارے  نظر آۓ

گرتے ہوۓ مقتل میں ستارے نظر آۓ

انیس کے بیٹے میر نفیس کے نواسے میر عارف کی ایک تحریری یاداشت سے پتہ چلتا ہے کہ اٹھارہ سو ستاون کے بعد انیس نے محلہ سبزی منڈی چوک لکھنؤ کے عقب میں واقع رہائش گاہ میںایک سو ستانوے بند یعنی ایک ہزار ایک سو بیاسی مصرعوں کا یہ مرثیہ ” جب قطع کی مسافت شب آفتاب نے” ایک ہی رات میں تحریر کیا اور گھر کے عشرے میں پڑھا جو انیس کے شاہکار مراثی میں سے ایک ہے۔انیس کی مرثیہ نگاری کے معجزات میں سے ایک بغیر نقطوں کے مرثیے بھی ہیں۔ان طویل مراثی میں کہیں بھی ایک نقطہ نہیں اور سی مناسبت سے انہیں بے نقط کے مرثیے کہا جاتا ہے۔

انیس شاید آنے والے حالات و واقعات سے بھی با خبر اور آگاہ رہتے تھے اور شاید اسی لیۓ 23 جولائ 1871 کو انہوں نے خاندان کے لیۓ ایک وسیع زمین گھر کے قریب ہی اسوقت تدفین کی خاطر 100 روپے میں خرید لی تھی۔ 1874 میں 24 رمضان کو انیس بیمار ہوۓ اور ابتدا میں ہونے والا بخار مرض الموت بن گیا اور یوں 01 دسمبر 1874 کو بوقت مغرب یہ آفتاب شاعری غروب ہو گیا۔ غفران مآب کی امامبارگاہ میں سید بندے علی نے نماز جنازہ پڑھائ اور سبزی منڈی چوک میں اپنے ہی گھر کے باغ میں سپرد خاک کیا گیا۔ زندگی کے آخری ایام میں ایک رباعی یوں کہی۔

وہ موج   حوادث   کا  تھپیڑا  نہ  رہا

کشتی وہ ہوئ غرق وہ   بیڑا  نہ رہا

سارے جھگڑے تھے زندگی کے انیس

جب ہم نہ رہے تو کچھ بکھیڑا نہ  رہا

رواں صدی کے عظیم مرثیہ نگار شاعر جوش ملیح آبادی نے خداۓ سخن میر انیس کو یاد کرتے ہوۓ کیا خوب کہا ہے۔

اے دیار لفظ و معنی کےرئیس ابن رئیس

اے امین کربلا باطل فگار و حق نویس

ناظم کرسی نشین و شاعر یزداں جلیس

عظمت آل محمد کے مورخ اے  انیس

                  تیری ہر موج نفس روح الامیں کی جان ہے

                  تو  مری  اردو  زباں  کا  بولتا    قرآن  ہے

مقروض ہیں انیس کے ہم لوگ آج بھی

میر انیس کے دو سو سالہ جشن کی لندن اسلامک سینٹر میں ہونے والی اولیںتقریب کے موقع پر لکھا گیامختصر مقالہ

(صفدر ھمٰدانی۔۔لندن۔۔٢٤ اگست ٢٠٠٦)

خواتین و حضرات ۔۔۔لسلام علیکم

میں اس نہایت محدود وقت میں اپنے خیالات کے اظہار سے قبل انٹرنیشنل اسلامک لنک اور ڈاکٹر احسن زیدی کو مبارکباد دیتا ہوں کہ انہوں نے خُدائے سخن اور امامِ مرثیہ نگاراں میر ببر علی انیس کے دو سو سالہ جشن کے حوالے سے اس محتصر محفل کا انعقاد نہایت عجلت میں کر کے یہ بات ثابت کر دی کہ جدید اطلاعاتی ٹیکنالوجی اور تیز ترین ذرائع ابلاغ کے اس دور میں بالاخر یہ خبر برطانیہ جیسے ملک کے دارالحکومت لندن تک بھی پہنچ گئی ہے کہ سن دو ہزار دو خدائے سخن میر انیس کی دو سو سالہ جشنِ ولادت کا سال ہے۔ خیر بعد از بسیار دیرآید مگر درست آید۔ اب یہ امید بھی ہو چلی ہے کہ شاید کوئی نہ کوئی انیس شناس تنظیم،فرد،افراد یا پھر کوئی ادبی ادارہ لکھنؤ، کراچی اور لاہور کے بعد اردو کے اس سب سے بڑے مرکز لندن میں انیس کے شایانِ شان دو سو سالہ جشنِ انیس کی تقریب اس سال کے اختتام سے قبل منعقد کر پائے گا۔

سامعینِ کرام میرا تعلق بھی مرثیہ نگار قبیلے سے ہے لیکن اس کے باوجود مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ غیر تو غیر خود اپنوں نے بھی مرثیہ نگار کو کم تر شاعر اور مرثیہ نگاری کو کمتر صنفِ سخن سے زیادہ کوئی مقام نہیں دیا اور مرثیے جیسی توانا ادبی صنف کو صرف محرم الحرام تک محدود کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی سر پرستی سے بھی گریز کیااور حد تو یہ ہے کہ ہماری اپنی نوجوا ن نسل کو شاید یہ بھی معلوم نہیں کہ مرثیہ بھی کوئی عالمی سطح کی ادبی صنف ہے اور انیس دبیر اور جوش کن تھے۔ ذرائع ابلاغ اور مواصلاتی انقلاب کے اس دور میں صرف مغربی ممالک اور دیارِ غیر میں ہی نہیں بلکہ بھارت اور پاکستان جیسے اردو کے ثقہ تاریخی مراکز میں بھی رہتے ہوئے عمومی طور پرہمارے بچوں اور جوانوں کی مرثیہ نگاری سے عدم واقفیت اور انیس و دبیر جیسے بلند قامت ناموں سے واجبی سی شناسائی یا تو ہمیں جھنجھوڑتی نہیں یا پھر بے حسی کی سحر آلودہ فضانے ہمیں پتھر کا بنا دیا ہے جو ایک لمحۂ فکریہ ہے۔

خواتین و حضرات ۔خدائے سخن اور امامِ مرثیہ نگاراں میر ببر علی انیس لگ بھگ دو سو سال قبل ١٨٠٢میں پیدا ہوئے اور ٧٢سال کی عمر میں ١٨٧٤میں وفات پائی۔سچ تو یہ ہے کہ آج دو سو سال گزرنے کے باوجود بھی ہم اردو بولنے والے اور خود اردو ادب انیس کا مقروض ہے اور ہم اس احسان کی شاید پہلی قسط بھی ادا نہیں کر سکے۔

مری قد ر کر اے زمینِ سخن

تجھے بات میں آسماں کر دیایا پھرگلدستئہ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں اِک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوںاور بلا شبہ ایک پھول کے مضمون کو سو رنگ سے باندھنے کا دعویٰ کرنے والے اور ایک ہزار سے زائد مرثیے لکھنے والے میر ببر علی انیس کا ہر مرثیہ فصاحت و بلاغت، سلاست و روانی، آہنگ و اسلوب، رزم و بزم، تشبیہات و استعا رات، الفاظ و بحور،رعایتِ لفظی، صنائع معنوی اور تاثیرِ فکر کا ایک حیرت انگیز نمونہ ہے۔

دوستانِ اردو ادب اور عاشقانِ میر انیس۔۔ شاعری اور فکرِشعر چونکہ میرے نزدیک دو مختلف موضوعات ہیں اس لیئے یہ ضرور عرض کر دوں کہ تخلیقِ شعر کے آغاز کے برعکس فکرِ شعر ہزاروں سال بعد اس میں داخل ہوئی. فکرِ شعر کسی بھی ادب کا دراصل وہ مرکزی جوہر ہے جس کی کسوٹی پر وہ ادب جاودانی اور معیارِ عالمی کاحقدار ٹھہرتا ہے.۔ اُردو ادب کو اگرچہ عالمی اور بین الاقوامی سطح پر بوجوہ وہ پذیرائی تو حاصل نہیں ہوئی جو دوسری بیشمار زبانوں کے ادب کو حاصل ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اردو ادب کسی دوسرے عالمی ادب سے کسی بھی طور کم تر ہے . عالمی سطح پر یہ پزیرائی حاصل نہ ہونے کی بے شمار وجوہات ہیں اور میرے نزدیک اس کی اہم ترین وجہ اس تاثر کا عام ہونا ہے کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے. عالمی سطح پر جدید ذرائع ابلاغ کے دور میںاور خاص طور پر امریکہ میں ١١ ستمبر ٢٠٠١ کے حملوں کے بعد سے اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ جو چند مخصوص رویے منسلک کر دیئے گئے ہیں انہوں نے اس ضمن میں خاصا کردار ادا کیا ہے . میری اس دلیل کا واحد مقصد اپنے اُس ذاتی فکری استدلال کا دفاع کرنا ہے کہ اردو ادب کا دامن اگرچہ اصنافِ ادب کے حوالے سے بے حد متنوع اور معیاری تخلیقی سرمائے سے ما لا مال ہے لیکن مرثیہ اردو ادب کی ایک ایسی قوی صنف ہے جسے اگر اب بھی چاہا جائے تو عالمی ادب کے معیار کے حوالے سے صفِ اول میں شامل کروایا جا سکتا ہے اور اس طرح ہم انیس شناسی اور انیس فہمی کے عمل کو بھی عالمی سطح پر صحیح معنوں میں متعارف کروا سکیں گے۔

میرا یہ دعویٰ شاید محققین کے لیئے ایک نقطہ فکر ہو کہ واقعہ کربلا کی جو شعری تخلیق اور تشکیل اردو مرثیے میں ہے شاید کسی بھی دوسری زبان کے ادب میں نہ ملے. کسی کے لیئے بھی اس سے انکار ناممکن ہے کہ اردو کی تقریباً تمام دوسری اصنافِ سخن اور انکے تمام تکنیکی ، ہیتی اور ادبی عناصر مستعار لیئے گئے ہیں جبکہ مسدس کی شکل میں اردو مرثیہ مکمل طور پر اردو کی اپنی ایجاد ہے. عام لوگ تو کجا خود اردو ادب خاص طور پر مرثیے کے۔ نام نہاد نقادوں کا صرف َ مرثیے َ کے لفظ کی وجہ سے کہ یہ عربی کا لفظ ہے اردو مرثیے کو عربی اور فارسی مرثیے کی توسیعی شاخ قرار دے دینا میرے جیسے طالبعلم کی سمجھ سے باہر ہے. یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ دوسری اصنافِ اردو ادب کے ناقدین کی طرح مرثیے کے ساتھ بھی یہ ستم ہے کہ اس کے ٩٩ فیصد نقاد خود مرثیہ نگاری فن اور رموزِ مرثیہ نگاری کی لزت سے نا آشنا ہیںلہٰذا وہ عملی تجربہ کہ لکھتے ہوئے مرثیہ نگار کس طرح خود کربلا میں اترتا ہے اور کس کرب سے گزرتا ہے اُنکی تنقید کو فقط کئی سو صفحات کی ضخیم تنقیدی کتاب تو بنا سکتا ہے مگر ایسی تصنیف حقیقی فکری عملی حسیات سے خالی ہوتی ہے۔

مرثیہ نگاری کسقدر محنتِ شاقہ اور مکمل دسترس کی متقاضی ہے اس امر کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ تاجِ اردو کے سب سے روشن ہیرے اور غالبِ کُلِ غالب کے مقتدی اسد اﷲ خان غالب جیسے قادر الکلام شاعر نے بھی مجتحد العصر مفتی میر عباس کے کہنے پر اردو مرثیہ لکھنا شروع کیا اور غالب کے سوانحِ نگار کے بقول یہ مرثیہ تین بند سے آگے نہ بڑھ سکا اور یہیں پر غالب نے انیس و دبیر کی قادر الکلامی اور عظمتِ فن کا اعتراف کر لیا. غالب کے تحریر کردہ اردو مرثیے کا ایک بند ملاحظہ فرمایئے.

ہاں اے نفسِ بادِ سحر شعلہ فشاں ہو ۔۔ اے دجلہ خوں چشمِ ملائک سے رواں ہو

اے زمزمئہ قُم لبِ عیسٰی سے رواں ہو ۔۔ اے ماتمیانِ شہِ مظلوم کہاں ہو

بگڑی ہے بہت بات بنائے نہیں بنتی

اب گھر کو بغیر آگ لگائے نہیں بنتی

شاد عظیم آبادی نے اپنی تصنیف پیمبرانِ سخن میں لکھا ہے کہ استادِ ذی کمال منشی اسیر مرحوم نے دس بارہ برس میں سولہ سترہ مرثیے لکھے لیکن جب ایک مجلس میں انیس سے انکا نو تصنیف مرثیہ ۔ جب قطع کی مسافتِ شب آفتاب نے  سُنا تو گھر جا کر اپنے تمام مرثیے اُٹھائے اور دریا برد کر دیئے۔

جدید ترین اردو تحقیق نے اردو کا پہلا مرثیہ گو شاعر عارف او صوفی شاعربرہان الدین جانم کو تسلیم کیا ہے جن کا زمانہ لگ بھگ ٩٥٠ ھجری کا ہے تا ہم اس صنف سخن میں اسی عہد کے قلی قطب شاہ اور عادل شاہ کی کوششوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تا ہم یہ اٹل حقیقیت ہے کہ میر انیس اردو کا پہلا شاعر ہے جس نے مرثیے کو اظہار کی ایسی قوت اور وسعت عطا کی ہے جو برسوں گزرنے کے بعد بھی اُس کے مضامین کی چمک میں اُس کے بعد آنے والوں کو نئی منزلیں دکھاتی ہے۔انیس کا کمال یہ کہ انہوں نے مرثیے کو شاعری اور اردو ادب کی تاریخ میں موضوعِ بحث صنفِ سخن قرار دلوایا اسی لیئے شبلی نعمانی کی موازنۂ انیس و دبیر سمیت محمد حسین آزاد اور الطاف حسین حالی جیسے عظیم لکھاریوں نے مرثیے کے باب میں نہایت سنجیدہ گفتگو کی ہے۔

سامعین۔ زیادہ تر محققین کے مطابق انیس نے پہلا مرثیہ ١٨٢١ میں ١٩ برس کی عمر میں لکھا اور پہلی مجلس لکھنؤ کے محلے نخاس میں میر ضمیر اور میر خلیق کی موجودگی میں پڑھی اُسوقت میر ضمیر کی عمر ٥٤ برس تھی اور بقول ڈاکٹر اکبر حیدر آبادی یہ میر ضمیر ہی کی طرزِ مرثیہ نگاری تھی جس پر بعد میں انیس و دبیر نے جدید مرثیے کا تاج محل تعمیر کیا۔

خواتین و حضرات میں خود آج تک جدید اور قدیم مرثیے کی اصطلاحات کو سمجھ نہیں پایا کیونکہ میرے نزدیک صرف مرثیہ ہی نہیں بلکہ کوئی بھی ادب پارہ جس عہد میں لکھا جا رہا ہو وہ اس عہد کے تقاضوں کے مطابق جدید ہی ہوتا ہے مگر یہاں بھی انیس کے مراثی کو یہ کمال اور انفرادیت حاصل ہیں کہ یہ ہر عہد میں جدید مرثیے کی کسوٹی پر پورے اُترتے ہیں۔آج انیس کو جدید نہیں بلکہ قدیم یا پھر کلاسیک مرثیہ نگار کہنے والوں سے میں بصد احترام اتفاق نہیں کرتا کیونکہ میرے سامنے شاعرِ انقلاب حضرت جوش ملیح آبادی کی یہ کسوٹی ہے جو مرثیہ تاسئی حسین پر ابھارے وہ جدید ہے اور جو مرثیہ تاسئی حسین پر نہ ابھارے وہ چاہے کیسے بھی جدید سے جدید ترین عہد میں لکھا جائے قدیم مرثیہ کہلائے گا ۔حضرات یہ محلِ مظر رہے کہ حضرتِ جوش نے یہاں تاسئی حسین کو سیاسی معنوں میں نہیں بلکہ اسلام کی بنیادی اور حقیقی تعلیمات کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ میں نے مرثیے کے متعدد نقادوں کے ہاں مغربی اور مشرقی ادب اور ادیب اور خاص طور پر انیس اور دبیر کے مرثیوں کا مغربی صنفِ سخن Elegyسے موازنہ کئی کئی مرتبہ پڑھا ہے اور میں اس تقابل کو سمجھنے سے اس لیئے قاصر رہا ہوں کہ کیا ہمیں اپنے ہر کام کے لیئے مغرب کی سند درکار ہے۔میرے مزدیک اردو مرثیے کی بنیاد یعنی واقعہ کربلا ایک اتنی قوی اور مستحکم بنیاد ہے کہ اسکی یکتائی اور عالمگیریت اردو مرثیے خاص طور پر انیس کے مرثیوں کی عظمت کے لیئے کافی ہے۔ اردو مرثیے نے براہِ راست کربلا سے اکتساب کیا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اتنے بڑے اور یکتا واقعے کے بیان کے لیئے مرثیے سے بہتر صنفِ سخن شاید اور کوئی نہ ہوتی۔.میرا یہ یقین کامل ہے کہ اردو مرثیے نے دراصل کربلا کی ابدی صداقت کے ذریعے اپنی صداقت قائم کی ہے ۔قلم کے ذریعے لفظوں کے کوے ہنکانا شاعری نہیں ہے بازی گری ہے۔لفظ صرف لفظ نہیں ہوتے لفظوں کو زندگی سے بھی بھر پور ہونا چاہیئے ۔لفظ صرف الفاظ ہی نہ ہوں بلکہ ضرورت کے وقت پرواز بھی کریں۔اِنکا قدوقامت جذبے کی آنچ سے گھٹتا بڑھتا رہے۔ انیس سے قبل یہ الفاظ اردو کے بازار میں دھات سے بنے ہوئے سکے تھے لیکن انیس نے ان دھاتوں کو گلا کر پانی بنا دیا،لفظوں کے نئے محل تراشے اور اُنکی نئی جہتیں مقرر کیں۔ انیس شناسی یا انیس فہمی ایک مکمل ،وسیع اور الگ موضوع ہے جس پر اس مختصر وقت میں بات ممکن نہیں لیکن میں یہ ضرور عرض کرنا چاہوں گا کہ انیس کو سمجھنے کے لیئے ایک خاص فضا سے گزرنا پڑتا ہے اور انیس کو عمومی طور پر نہ جاننے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب تک واقعہ کربلا اور اسکے اسباب و نتائج کا مکمل علم نہ ہو انیس کو سمجھنا ناممکن ہے اور اسی لاعلمی کا نتیجہ ہے کہ انیس جیسا قادر الکلام شاعر زیادہ تر لوگوں کو مذہبی یا مسلکی شاعر لگتا ہے۔

اس بات سے انکار ناممکن ہے کہ ملکِ سخن کی بادشاہی اور تاجوری آج بھی انیس کے پاس ہے اور اس کا سچا دعویٰ انیس نے برسوں قبل اس طرح کیا تھا کہ مقبولِ بارگاہِ ایزدی ہوا۔

جب تک کہ ضیا مہر کے پرتو سے نہ جائے

اقلیمِ سخن میری قلم رو سے نہ جائے

لگ بھگ دو سوسال گزرنے کے باوجود انیس کی مرثیہ نگاری کی لا تعداد صفات ایسی ہیں جن پر ناقدین کی نگاہ ابھی تک نہیں پڑی ۔کلامِ انیس اور مقامِ انیس پر لکھنے کے لیئے بلا شبہ ابھی بھی کئی صدیاں درکار ہیں۔سچی بات تو یہ ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر افراد کو تو ابھی انیس کے مکمل مرثیوں سے بھی آشنائی نہیں ہے۔

میں آخر میں یہ ضرور عرض کرنا چاہتا ہوں کہ خدائے سخن میر انیس سے لیکر جوش ملیح آبادی تک اور پھر جوش سے عہدِ حاضر کے کئی نوجوان اور تازہ ذہن کے مرثیہ نگاروں تک کی شعری کاوشیں کسی بھی طور پر ادبِ عالیہ اور عالمی ادب کے موجودہ معیار سے کم نہیں. ضرورت اس امر کی ہے کہ دیگر مغربی اور مشرقی زبانوں میں ترجمے کے ماہرین کی خدمات سے استفادہ کیا جائے تاکہ برِصغیر کی چاردیواری سے باہر بھی اس صنفِ عالیہ کی آواز بلکہ گھن گھرج سنائی دے سکے. سوچنے کی بات صرف یہ ہے کہ اگر اہلِ ادب کے کچھ گروہ بابا بلھے شاہ،سچل سرمست اور امیر خسرو کو عالمی سطح پر کسی حد تک متعارف کرانے میں کامیاب ہو چکے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ اردو مرثیے کی محبت سے سرشار اذہان و قلوب انیس،دبیر اور جوش کو ادبائے عالم کے سامنے اُسطرح پیش نہیں کر سکے جس سے ان عظیم مرثیہ نگاروں کے مقامی نہیں بلکہ عالمی قد کاٹھ کا اندازہ ہو سکتا. آج کے استدلالی دور میں صرف یہ کہہ دینا ہی کافی نہیں کہ ہمارا اردو مرثیہ عالمی ادب کے ہم پلہ ہے اور انیس و دبیر سے جوش تک کے ہمارے مرثیہ نگار عالمی معیار کے شاعر ہیں بلکہ اس استدلال کو ثابت کرنے کے لیئے جس فکری منصوبہ بندی کی ضرورت ہے وہ ہمارے ہاں ناپید ہے. لیکن اس صورتِ حال کے باوجود اگر اہلِ قلم حضرات اردو مرثیے کی عظمت، انفرادیت،تنوع اور دیگر محاسن کے بارے میں تحریر کرتے رہیں اور خصوصاً انگریزی،فارسی، عربی، فرانسیسی ، جرمن اور دیگر غیر ملکی زبانوں میں انکے تراجم عالمی معیار کے رسائل و جرائد میں شائع کروائے جائیں تو بلاشبہ عالمی ادب کے اجارہ داروں کو ایک یہ ایک دن اس صنف کی عظمت کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا.

کسی زمانے میں مرثیہ نہ کہہ سکنے والوں نے احساسِ کمتری کے باعث بگڑے شاعر کو جو مرثیہ گو قرار دیا تھا وہ رویہ آج بھی موجود ہے اور ادب دوستی کا دعویٰ کرنے والوں کی اکثریت اسے محض مذہبی، مسلکی اور عزائی خانوں میں قید رکھنے کے حق میں ہے. میرا استدلا ل یہ ہے کہ اگر اسکی وجہ اور بنیاد صرف کربلا کا واقعہ اور امام حسین ہیں تو یہ بذاتِ خود جاہل اذہان کی جہالت کی دلیل ہے کیونکہ واقعۂ کربلا اور امام حسین کا تعلق کسی فرقے، مذہب یا تہذیب تک محدود نہیں بلکہ یہ تو وہ استعارے ہیں جو سارے زمانوں اور دنیاؤں کے لیئے ہیں. یہ وہ روشنی ہے جس سے کوئی بھی فیض حاصل کر سکتا ہے. عزت سے زندہ رہنے کا وہ راستہ ہے جسے مسلمان،ہندو،سکھ،عیسائی،پارسی،یہودی حتیٰ کہ بے دین بھی اپنا سکتا ہے.

خواتین و حضرات

٢١ ویں صدی کے در پر دستک دیتا مروجہ اصطلاح میںآجکا جدید مرثیہ بھی انیس کی مرثیہ نگاری کا مرہونِ منت ہے اور سچ تو یہ ہے کہ دوسو سال پہلے کا مرثیہ نگار انیس آج بھی اُتنا ہی جدید اور تروتازہ ہے جتنا ١٩ویں صدی کے آغاز میں تھا۔ مرثیہ اس پُر آشوب عہد میں بھی امن کی آواز اور احترامِ انسانیت و آدمیت کا پیغام ہے. مرثیے نے ہر وقت اور ہر زمانے کا ساتھ دیا ہے .مرثیے میں اُس کربلا سے اِس کربلا تک کا صدیوں کا سفر ہے جو نہ جانے اور کتنی صدیوں تک جاری رہے گااور اس سفر کا تسلسل انیس کے زندہ ہونے کی دلیل ہے ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اردو ادب کے محسن میر انیس کے بارے میں محسن کُشی کا رویہ ختم کیا جائے اور موجودہ مواصلاتی انقلاب اور انٹرنیٹ جیسی سہولتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انیس اور اُنکے مرثیوں کو مختلف بین الاقوامی زبانوں میں ترجمہ کر کے عا لمی سطح پر متعارف اور مشتہر کرایا جائے تا کہ اس مُحسنِ اردو کا کچھ تو قرض ادا ہو سکے۔ 

تمہارے در پہ مجھے لائی جستجوئے ادب

انیس تجھ ہی سے قائم ہے آبروئے ادب 

ہے مثلِ کہکشاں چرخِ علم پر روشن

امامِ مرثیہ گویاں ہے حُسنِ روئے ادب 

ادب کی دنیا میں کوئی نہیں ترا ہمسر

ترے قلم سے سمندر بنی ہے جوئے ادب 

انیسِ اردو ادب تیرے سامنے صفدر

کہے جو مرثیہ گو خود کو یہ ہے سوئے ادب (صفدر ھمٰدانی) 

مقروض ہیں انیس کے ہم لوگ آج بھی

میر انیس کے دو سو سالہ جشن کی لندن اسلامک سینٹر میں ہونے والی اولیںتقریب کے موقع پر لکھا گیامختصر مقالہ

(صفدر ھمٰدانی۔۔لندن۔۔٢٤ اگست ٢٠٠٦)

خواتین و حضرات ۔۔۔لسلام علیکم

میں اس نہایت محدود وقت میں اپنے خیالات کے اظہار سے قبل انٹرنیشنل اسلامک لنک اور ڈاکٹر احسن زیدی کو مبارکباد دیتا ہوں کہ انہوں نے خُدائے سخن اور امامِ مرثیہ نگاراں میر ببر علی انیس کے دو سو سالہ جشن کے حوالے سے اس محتصر محفل کا انعقاد نہایت عجلت میں کر کے یہ بات ثابت کر دی کہ جدید اطلاعاتی ٹیکنالوجی اور تیز ترین ذرائع ابلاغ کے اس دور میں بالاخر یہ خبر برطانیہ جیسے ملک کے دارالحکومت لندن تک بھی پہنچ گئی ہے کہ سن دو ہزار دو خدائے سخن میر انیس کی دو سو سالہ جشنِ ولادت کا سال ہے۔ خیر بعد از بسیار دیرآید مگر درست آید۔ اب یہ امید بھی ہو چلی ہے کہ شاید کوئی نہ کوئی انیس شناس تنظیم،فرد،افراد یا پھر کوئی ادبی ادارہ لکھنؤ، کراچی اور لاہور کے بعد اردو کے اس سب سے بڑے مرکز لندن میں انیس کے شایانِ شان دو سو سالہ جشنِ انیس کی تقریب اس سال کے اختتام سے قبل منعقد کر پائے گا۔

سامعینِ کرام میرا تعلق بھی مرثیہ نگار قبیلے سے ہے لیکن اس کے باوجود مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ غیر تو غیر خود اپنوں نے بھی مرثیہ نگار کو کم تر شاعر اور مرثیہ نگاری کو کمتر صنفِ سخن سے زیادہ کوئی مقام نہیں دیا اور مرثیے جیسی توانا ادبی صنف کو صرف محرم الحرام تک محدود کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی سر پرستی سے بھی گریز کیااور حد تو یہ ہے کہ ہماری اپنی نوجوا ن نسل کو شاید یہ بھی معلوم نہیں کہ مرثیہ بھی کوئی عالمی سطح کی ادبی صنف ہے اور انیس دبیر اور جوش کن تھے۔ ذرائع ابلاغ اور مواصلاتی انقلاب کے اس دور میں صرف مغربی ممالک اور دیارِ غیر میں ہی نہیں بلکہ بھارت اور پاکستان جیسے اردو کے ثقہ تاریخی مراکز میں بھی رہتے ہوئے عمومی طور پرہمارے بچوں اور جوانوں کی مرثیہ نگاری سے عدم واقفیت اور انیس و دبیر جیسے بلند قامت ناموں سے واجبی سی شناسائی یا تو ہمیں جھنجھوڑتی نہیں یا پھر بے حسی کی سحر آلودہ فضانے ہمیں پتھر کا بنا دیا ہے جو ایک لمحۂ فکریہ ہے۔

خواتین و حضرات ۔خدائے سخن اور امامِ مرثیہ نگاراں میر ببر علی انیس لگ بھگ دو سو سال قبل ١٨٠٢میں پیدا ہوئے اور ٧٢سال کی عمر میں ١٨٧٤میں وفات پائی۔سچ تو یہ ہے کہ آج دو سو سال گزرنے کے باوجود بھی ہم اردو بولنے والے اور خود اردو ادب انیس کا مقروض ہے اور ہم اس احسان کی شاید پہلی قسط بھی ادا نہیں کر سکے۔

مری قد ر کر اے زمینِ سخن

تجھے بات میں آسماں کر دیا

یا پھر

گلدستئہ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں

اِک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں

اور بلا شبہ ایک پھول کے مضمون کو سو رنگ سے باندھنے کا دعویٰ کرنے والے اور ایک ہزار سے زائد مرثیے لکھنے والے میر ببر علی انیس کا ہر مرثیہ فصاحت و بلاغت، سلاست و روانی، آہنگ و اسلوب، رزم و بزم، تشبیہات و استعا رات، الفاظ و بحور،رعایتِ لفظی، صنائع معنوی اور تاثیرِ فکر کا ایک حیرت انگیز نمونہ ہے۔

دوستانِ اردو ادب اور عاشقانِ میر انیس۔۔ شاعری اور فکرِشعر چونکہ میرے نزدیک دو مختلف موضوعات ہیں اس لیئے یہ ضرور عرض کر دوں کہ تخلیقِ شعر کے آغاز کے برعکس فکرِ شعر ہزاروں سال بعد اس میں داخل ہوئی. فکرِ شعر کسی بھی ادب کا دراصل وہ مرکزی جوہر ہے جس کی کسوٹی پر وہ ادب جاودانی اور معیارِ عالمی کاحقدار ٹھہرتا ہے.۔ اُردو ادب کو اگرچہ عالمی اور بین الاقوامی سطح پر بوجوہ وہ پذیرائی تو حاصل نہیں ہوئی جو دوسری بیشمار زبانوں کے ادب کو حاصل ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اردو ادب کسی دوسرے عالمی ادب سے کسی بھی طور کم تر ہے . عالمی سطح پر یہ پزیرائی حاصل نہ ہونے کی بے شمار وجوہات ہیں اور میرے نزدیک اس کی اہم ترین وجہ اس تاثر کا عام ہونا ہے کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے. عالمی سطح پر جدید ذرائع ابلاغ کے دور میںاور خاص طور پر امریکہ میں ١١ ستمبر ٢٠٠١ کے حملوں کے بعد سے اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ جو چند مخصوص رویے منسلک کر دیئے گئے ہیں انہوں نے اس ضمن میں خاصا کردار ادا کیا ہے . میری اس دلیل کا واحد مقصد اپنے اُس ذاتی فکری استدلال کا دفاع کرنا ہے کہ اردو ادب کا دامن اگرچہ اصنافِ ادب کے حوالے سے بے حد متنوع اور معیاری تخلیقی سرمائے سے ما لا مال ہے لیکن مرثیہ اردو ادب کی ایک ایسی قوی صنف ہے جسے اگر اب بھی چاہا جائے تو عالمی ادب کے معیار کے حوالے سے صفِ اول میں شامل کروایا جا سکتا ہے اور اس طرح ہم انیس شناسی اور انیس فہمی کے عمل کو بھی عالمی سطح پر صحیح معنوں میں متعارف کروا سکیں گے۔

میرا یہ دعویٰ شاید محققین کے لیئے ایک نقطہ فکر ہو کہ واقعہ کربلا کی جو شعری تخلیق اور تشکیل اردو مرثیے میں ہے شاید کسی بھی دوسری زبان کے ادب میں نہ ملے. کسی کے لیئے بھی اس سے انکار ناممکن ہے کہ اردو کی تقریباً تمام دوسری اصنافِ سخن اور انکے تمام تکنیکی ، ہیتی اور ادبی عناصر مستعار لیئے گئے ہیں جبکہ مسدس کی شکل میں اردو مرثیہ مکمل طور پر اردو کی اپنی ایجاد ہے. عام لوگ تو کجا خود اردو ادب خاص طور پر مرثیے کے۔ نام نہاد نقادوں کا صرف َ مرثیے َ کے لفظ کی وجہ سے کہ یہ عربی کا لفظ ہے اردو مرثیے کو عربی اور فارسی مرثیے کی توسیعی شاخ قرار دے دینا میرے جیسے طالبعلم کی سمجھ سے باہر ہے. یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ دوسری اصنافِ اردو ادب کے ناقدین کی طرح مرثیے کے ساتھ بھی یہ ستم ہے کہ اس کے ٩٩ فیصد نقاد خود مرثیہ نگاری فن اور رموزِ مرثیہ نگاری کی لزت سے نا آشنا ہیںلہٰذا وہ عملی تجربہ کہ لکھتے ہوئے مرثیہ نگار کس طرح خود کربلا میں اترتا ہے اور کس کرب سے گزرتا ہے اُنکی تنقید کو فقط کئی سو صفحات کی ضخیم تنقیدی کتاب تو بنا سکتا ہے مگر ایسی تصنیف حقیقی فکری عملی حسیات سے خالی ہوتی ہے۔

مرثیہ نگاری کسقدر محنتِ شاقہ اور مکمل دسترس کی متقاضی ہے اس امر کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ تاجِ اردو کے سب سے روشن ہیرے اور غالبِ کُلِ غالب کے مقتدی اسد اﷲ خان غالب جیسے قادر الکلام شاعر نے بھی مجتحد العصر مفتی میر عباس کے کہنے پر اردو مرثیہ لکھنا شروع کیا اور غالب کے سوانحِ نگار کے بقول یہ مرثیہ تین بند سے آگے نہ بڑھ سکا اور یہیں پر غالب نے انیس و دبیر کی قادر الکلامی اور عظمتِ فن کا اعتراف کر لیا. غالب کے تحریر کردہ اردو مرثیے کا ایک بند ملاحظہ فرمایئے.

ہاں اے نفسِ بادِ سحر شعلہ فشاں ہو ۔۔ اے دجلہ خوں چشمِ ملائک سے رواں ہو

اے زمزمئہ قُم لبِ عیسٰی سے رواں ہو ۔۔ اے ماتمیانِ شہِ مظلوم کہاں ہو

بگڑی ہے بہت بات بنائے نہیں بنتی

اب گھر کو بغیر آگ لگائے نہیں بنتی

شاد عظیم آبادی نے اپنی تصنیف پیمبرانِ سخن میں لکھا ہے کہ استادِ ذی کمال منشی اسیر مرحوم نے دس بارہ برس میں سولہ سترہ مرثیے لکھے لیکن جب ایک مجلس میں انیس سے انکا نو تصنیف مرثیہ ۔ جب قطع کی مسافتِ شب آفتاب نے  سُنا تو گھر جا کر اپنے تمام مرثیے اُٹھائے اور دریا برد کر دیئے۔

جدید ترین اردو تحقیق نے اردو کا پہلا مرثیہ گو شاعر عارف او صوفی شاعربرہان الدین جانم کو تسلیم کیا ہے جن کا زمانہ لگ بھگ ٩٥٠ ھجری کا ہے تا ہم اس صنف سخن میں اسی عہد کے قلی قطب شاہ اور عادل شاہ کی کوششوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تا ہم یہ اٹل حقیقیت ہے کہ میر انیس اردو کا پہلا شاعر ہے جس نے مرثیے کو اظہار کی ایسی قوت اور وسعت عطا کی ہے جو برسوں گزرنے کے بعد بھی اُس کے مضامین کی چمک میں اُس کے بعد آنے والوں کو نئی منزلیں دکھاتی ہے۔انیس کا کمال یہ کہ انہوں نے مرثیے کو شاعری اور اردو ادب کی تاریخ میں موضوعِ بحث صنفِ سخن قرار دلوایا اسی لیئے شبلی نعمانی کی موازنۂ انیس و دبیر سمیت محمد حسین آزاد اور الطاف حسین حالی جیسے عظیم لکھاریوں نے مرثیے کے باب میں نہایت سنجیدہ گفتگو کی ہے۔

سامعین۔ زیادہ تر محققین کے مطابق انیس نے پہلا مرثیہ ١٨٢١ میں ١٩ برس کی عمر میں لکھا اور پہلی مجلس لکھنؤ کے محلے نخاس میں میر ضمیر اور میر خلیق کی موجودگی میں پڑھی اُسوقت میر ضمیر کی عمر ٥٤ برس تھی اور بقول ڈاکٹر اکبر حیدر آبادی یہ میر ضمیر ہی کی طرزِ مرثیہ نگاری تھی جس پر بعد میں انیس و دبیر نے جدید مرثیے کا تاج محل تعمیر کیا۔

خواتین و حضرات میں خود آج تک جدید اور قدیم مرثیے کی اصطلاحات کو سمجھ نہیں پایا کیونکہ میرے نزدیک صرف مرثیہ ہی نہیں بلکہ کوئی بھی ادب پارہ جس عہد میں لکھا جا رہا ہو وہ اس عہد کے تقاضوں کے مطابق جدید ہی ہوتا ہے مگر یہاں بھی انیس کے مراثی کو یہ کمال اور انفرادیت حاصل ہیں کہ یہ ہر عہد میں جدید مرثیے کی کسوٹی پر پورے اُترتے ہیں۔آج انیس کو جدید نہیں بلکہ قدیم یا پھر کلاسیک مرثیہ نگار کہنے والوں سے میں بصد احترام اتفاق نہیں کرتا کیونکہ میرے سامنے شاعرِ انقلاب حضرت جوش ملیح آبادی کی یہ کسوٹی ہے جو مرثیہ تاسئی حسین پر ابھارے وہ جدید ہے اور جو مرثیہ تاسئی حسین پر نہ ابھارے وہ چاہے کیسے بھی جدید سے جدید ترین عہد میں لکھا جائے قدیم مرثیہ کہلائے گا ۔حضرات یہ محلِ مظر رہے کہ حضرتِ جوش نے یہاں تاسئی حسین کو سیاسی معنوں میں نہیں بلکہ اسلام کی بنیادی اور حقیقی تعلیمات کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ میں نے مرثیے کے متعدد نقادوں کے ہاں مغربی اور مشرقی ادب اور ادیب اور خاص طور پر انیس اور دبیر کے مرثیوں کا مغربی صنفِ سخن Elegyسے موازنہ کئی کئی مرتبہ پڑھا ہے اور میں اس تقابل کو سمجھنے سے اس لیئے قاصر رہا ہوں کہ کیا ہمیں اپنے ہر کام کے لیئے مغرب کی سند درکار ہے۔میرے مزدیک اردو مرثیے کی بنیاد یعنی واقعہ کربلا ایک اتنی قوی اور مستحکم بنیاد ہے کہ اسکی یکتائی اور عالمگیریت اردو مرثیے خاص طور پر انیس کے مرثیوں کی عظمت کے لیئے کافی ہے۔ اردو مرثیے نے براہِ راست کربلا سے اکتساب کیا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اتنے بڑے اور یکتا واقعے کے بیان کے لیئے مرثیے سے بہتر صنفِ سخن شاید اور کوئی نہ ہوتی۔.میرا یہ یقین کامل ہے کہ اردو مرثیے نے دراصل کربلا کی ابدی صداقت کے ذریعے اپنی صداقت قائم کی ہے ۔قلم کے ذریعے لفظوں کے کوے ہنکانا شاعری نہیں ہے بازی گری ہے۔لفظ صرف لفظ نہیں ہوتے لفظوں کو زندگی سے بھی بھر پور ہونا چاہیئے ۔لفظ صرف الفاظ ہی نہ ہوں بلکہ ضرورت کے وقت پرواز بھی کریں۔اِنکا قدوقامت جذبے کی آنچ سے گھٹتا بڑھتا رہے۔ انیس سے قبل یہ الفاظ اردو کے بازار میں دھات سے بنے ہوئے سکے تھے لیکن انیس نے ان دھاتوں کو گلا کر پانی بنا دیا،لفظوں کے نئے محل تراشے اور اُنکی نئی جہتیں مقرر کیں۔ انیس شناسی یا انیس فہمی ایک مکمل ،وسیع اور الگ موضوع ہے جس پر اس مختصر وقت میں بات ممکن نہیں لیکن میں یہ ضرور عرض کرنا چاہوں گا کہ انیس کو سمجھنے کے لیئے ایک خاص فضا سے گزرنا پڑتا ہے اور انیس کو عمومی طور پر نہ جاننے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب تک واقعہ کربلا اور اسکے اسباب و نتائج کا مکمل علم نہ ہو انیس کو سمجھنا ناممکن ہے اور اسی لاعلمی کا نتیجہ ہے کہ انیس جیسا قادر الکلام شاعر زیادہ تر لوگوں کو مذہبی یا مسلکی شاعر لگتا ہے۔

اس بات سے انکار ناممکن ہے کہ ملکِ سخن کی بادشاہی اور تاجوری آج بھی انیس کے پاس ہے اور اس کا سچا دعویٰ انیس نے برسوں قبل اس طرح کیا تھا کہ مقبولِ بارگاہِ ایزدی ہوا۔

جب تک کہ ضیا مہر کے پرتو سے نہ جائے

اقلیمِ سخن میری قلم رو سے نہ جائے

لگ بھگ دو سوسال گزرنے کے باوجود انیس کی مرثیہ نگاری کی لا تعداد صفات ایسی ہیں جن پر ناقدین کی نگاہ ابھی تک نہیں پڑی ۔کلامِ انیس اور مقامِ انیس پر لکھنے کے لیئے بلا شبہ ابھی بھی کئی صدیاں درکار ہیں۔سچی بات تو یہ ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر افراد کو تو ابھی انیس کے مکمل مرثیوں سے بھی آشنائی نہیں ہے۔

میں آخر میں یہ ضرور عرض کرنا چاہتا ہوں کہ خدائے سخن میر انیس سے لیکر جوش ملیح آبادی تک اور پھر جوش سے عہدِ حاضر کے کئی نوجوان اور تازہ ذہن کے مرثیہ نگاروں تک کی شعری کاوشیں کسی بھی طور پر ادبِ عالیہ اور عالمی ادب کے موجودہ معیار سے کم نہیں. ضرورت اس امر کی ہے کہ دیگر مغربی اور مشرقی زبانوں میں ترجمے کے ماہرین کی خدمات سے استفادہ کیا جائے تاکہ برِصغیر کی چاردیواری سے باہر بھی اس صنفِ عالیہ کی آواز بلکہ گھن گھرج سنائی دے سکے. سوچنے کی بات صرف یہ ہے کہ اگر اہلِ ادب کے کچھ گروہ بابا بلھے شاہ،سچل سرمست اور امیر خسرو کو عالمی سطح پر کسی حد تک متعارف کرانے میں کامیاب ہو چکے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ اردو مرثیے کی محبت سے سرشار اذہان و قلوب انیس،دبیر اور جوش کو ادبائے عالم کے سامنے اُسطرح پیش نہیں کر سکے جس سے ان عظیم مرثیہ نگاروں کے مقامی نہیں بلکہ عالمی قد کاٹھ کا اندازہ ہو سکتا. آج کے استدلالی دور میں صرف یہ کہہ دینا ہی کافی نہیں کہ ہمارا اردو مرثیہ عالمی ادب کے ہم پلہ ہے اور انیس و دبیر سے جوش تک کے ہمارے مرثیہ نگار عالمی معیار کے شاعر ہیں بلکہ اس استدلال کو ثابت کرنے کے لیئے جس فکری منصوبہ بندی کی ضرورت ہے وہ ہمارے ہاں ناپید ہے. لیکن اس صورتِ حال کے باوجود اگر اہلِ قلم حضرات اردو مرثیے کی عظمت، انفرادیت،تنوع اور دیگر محاسن کے بارے میں تحریر کرتے رہیں اور خصوصاً انگریزی،فارسی، عربی، فرانسیسی ، جرمن اور دیگر غیر ملکی زبانوں میں انکے تراجم عالمی معیار کے رسائل و جرائد میں شائع کروائے جائیں تو بلاشبہ عالمی ادب کے اجارہ داروں کو ایک یہ ایک دن اس صنف کی عظمت کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا.

کسی زمانے میں مرثیہ نہ کہہ سکنے والوں نے احساسِ کمتری کے باعث بگڑے شاعر کو جو مرثیہ گو قرار دیا تھا وہ رویہ آج بھی موجود ہے اور ادب دوستی کا دعویٰ کرنے والوں کی اکثریت اسے محض مذہبی، مسلکی اور عزائی خانوں میں قید رکھنے کے حق میں ہے. میرا استدلا ل یہ ہے کہ اگر اسکی وجہ اور بنیاد صرف کربلا کا واقعہ اور امام حسین ہیں تو یہ بذاتِ خود جاہل اذہان کی جہالت کی دلیل ہے کیونکہ واقعۂ کربلا اور امام حسین کا تعلق کسی فرقے، مذہب یا تہذیب تک محدود نہیں بلکہ یہ تو وہ استعارے ہیں جو سارے زمانوں اور دنیاؤں کے لیئے ہیں. یہ وہ روشنی ہے جس سے کوئی بھی فیض حاصل کر سکتا ہے. عزت سے زندہ رہنے کا وہ راستہ ہے جسے مسلمان،ہندو،سکھ،عیسائی،پارسی،یہودی حتیٰ کہ بے دین بھی اپنا سکتا ہے.

خواتین و حضرات

٢١ ویں صدی کے در پر دستک دیتا مروجہ اصطلاح میںآجکا جدید مرثیہ بھی انیس کی مرثیہ نگاری کا مرہونِ منت ہے اور سچ تو یہ ہے کہ دوسو سال پہلے کا مرثیہ نگار انیس آج بھی اُتنا ہی جدید اور تروتازہ ہے جتنا ١٩ویں صدی کے آغاز میں تھا۔ مرثیہ اس پُر آشوب عہد میں بھی امن کی آواز اور احترامِ انسانیت و آدمیت کا پیغام ہے. مرثیے نے ہر وقت اور ہر زمانے کا ساتھ دیا ہے .مرثیے میں اُس کربلا سے اِس کربلا تک کا صدیوں کا سفر ہے جو نہ جانے اور کتنی صدیوں تک جاری رہے گااور اس سفر کا تسلسل انیس کے زندہ ہونے کی دلیل ہے ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اردو ادب کے محسن میر انیس کے بارے میں محسن کُشی کا رویہ ختم کیا جائے اور موجودہ مواصلاتی انقلاب اور انٹرنیٹ جیسی سہولتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انیس اور اُنکے مرثیوں کو مختلف بین الاقوامی زبانوں میں ترجمہ کر کے عا لمی سطح پر متعارف اور مشتہر کرایا جائے تا کہ اس مُحسنِ اردو کا کچھ تو قرض ادا ہو سکے۔ 

تمہارے در پہ مجھے لائی جستجوئے ادب

انیس تجھ ہی سے قائم ہے آبروئے ادب 

ہے مثلِ کہکشاں چرخِ علم پر روشن

امامِ مرثیہ گویاں ہے حُسنِ روئے ادب 

ادب کی دنیا میں کوئی نہیں ترا ہمسر

ترے قلم سے سمندر بنی ہے جوئے ادب 

انیسِ اردو ادب تیرے سامنے صفدر

کہے جو مرثیہ گو خود کو یہ ہے سوئے ادب (صفدر  مٰدانی) 

دبیر اور انیس کا موازنہ ایک سازش ہے‘

صفدرھمٰدانی

(لندن)

رثائی ادب کراچی کے دبیر نمبر کے لیئے

آغازِ تحریر میں ہی یہ عرض کر دوںکہ میں نہ تو کوئی محقق ہوں اور نہ ہی نقاد بلکہ عمومی طور پر ادب کا اور خصوصی طور پر مرثیے کا ایک طالبعلم ہوں لہٰذا میری معروضات میں شاید آپکو محققانہ اور ناقدانہ گوشے نہ ملیں جس کے لیئے میں پیشگی معذرت خواہ ہوں.میرے لیئے یہ بات شاید کوئی بہت زیادہ اہم نہیں کہ

انیس کی طرح اگر مرزا سلامت علی دبیر آج 2007 میں ہوتے تو کتنے برس کے ہوتے کیونکہ میرے نزدیک دبیر، انیس اور اسی قبیلے کے تما م بڑے نام کسی طبعی عمر کے اعدوشمار کے مرہون منت نہیں بلکہ زمانہ اور زمانے کے سانس لیتے مکین ان بڑے ناموں کے طالب اور اور انہی سے حصولِ فیض کے لیئے کشکول بدست ہیں.انیس اور دبیر صرف ہمارے اردو مرثیے کے ہی نہیں بلکہ پورے اردو ادب کے دو ایسے ستون ہیں جن پر ادب کی ساری عمارت کا دارومدار ہے. میں نے یہ بات کسی مذہبی،مسلکی یا دینی خوش فہمی کی بنیاد پر نہیں کہی بلکہ اردو ادب کے ایک ایسے طالب علم کے طور پر کہی ہے جسکی آنکھوں پر کسی تعصب کی پٹی نہیں اور جسے اپنے دین اور مسلک کے حوالے سے کوئی احساس کمتری بھی نہیں بلکہ سچ کہوں تو احساسِ تفاخر ہے کہ ہمارے پاس زندگی کے ہر شعبے،ہر زاویے اور ہر راستے کے لیئے پہلے سے ہی زندہ اور روشن مثالیں موجود ہیں ہاں اگر اس میں کوئی کمی ہے تو ہمارے شعور،ادراک اور فہم کی ہے.

اولاً تو میں رثائی ادب کی اشاعت کے ذمے دار تمام افراد کو انکے اس اقدام پر تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے دو سو سالہ یادگار انیس نمبر کے بعد اب رثائی ادب کا دبیر نمبر نکالنے کا بیڑہ اٹھایا ہے اور دوسرے پروردگار کا شکر ہے کہ ایک سازش کے تحت جو میرے نزدیک مرثیے کو نقصان پہنچنانے کی سازش تھی وہ جو انیسئے اور دبیریئے گروہ تشکیل پا گئے تھے انکے درمیان حائل خلیج کو صرف کم ہی نہیں بلکہ یکسر ختم کرنے کی مساعی رنگ لا رہی ہیں جو خود مرثیے کی نشاۃثانیہ کے لیئے نیک فال ہے.تاریخِ اردو ادب کا یہ عجیب ستم ہے کہ کرنے والوں نے کس طرح شعوری کوشش کے ساتھ مرثیے کی اقلیمِ بے کنار کو محدود کرنے کے لیئے مرثیے کو انیس اور دبیر میں تقسیم کر دیا اور یہی تقسیم پھر انیسیوں اور دبیریوں پر منتج ہوئی اور اس سے جو نقصان پہنچا وہ مرثیے کی عمارت کو پہنچا.وہ عمارت جو ایک عالیشان محل کی طرح ہوتی اُسے خاندان میں تقسیم ہونے والی جائیداد کی طرح درمیان میں دیوار چڑھا کر بدنما بنا دیا گیا.مرثیے کے خلاف قائم تعصب کوئی آج کی بات نہیں بلکہ اس تعصب کے ڈانڈے کربلا سے جا ملتے ہیں.میں نے اس سے پہلے بھی اپنے کسی مضمون میں لکھا تھا کہ اردو ادب میں مسدس کی صورت میں مرثیہ خود اردو ادب کی اپنی ایجاد ہے اور اس ھیئت میں ہم نے اسے کسی سے مستعار نہیں لیا اور پھر اس طرح کے مرثیے کو اپنی شناخت اور بقا کے لیئے جتنی بڑی دلیل درکار تھی وہ کربلا کی صورت میں اسے ملی اور کربلا سے بڑی اور سچی دلیل شاید کوئی دوسری ہو ہی نہیں سکتی تھی. میں ذاتی طور پر مرثیے کے حوالے سے قدیم ،جدید،جدیدتر،مغربی،عربی،فارسی اور اردو مرثیے کے تقابل کا بھی قائل نہیں ہو ں اور اسکے تو قطعی حق میں نہیں کہ مغرب کے خصوصاً انگریزی زبان کے شعرا کی اصناف سخن کا مرثیے سے اور پھر انکا انیس اور دبیر سے موازنہ کیا جائے.ایسے موازنے کرنے والے اگر اپنی علمی قابلیت کی دھونس جمانا چاہتے ہیں تو شاید ہمیں مرعوب نہ کر پائیں .اگر اسکا مقصد مرثیے اور اسکے ساتھ ساتھ انیس اور دبیر کے قد کو کم کرنا ہے تو وہ بلا شبہ اس میں ناکام ہیں اور مزید اگر اس کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ اردو مرثیے سے پہلے انگریزی ادب میں مرثیے کہے گئے ہیں تو وہ غلط ہیں.اس ساری غلط فہمی کی بنیادی وجہ یہ تعریف ہے کہ مرثیہ مرنے والے کی یادمیں کہے جانے والے اشعار کا نام ہے. پھر ایک بار کہوں کہ بس یہی وہ بنیادی اور صریح غلطی ہے جو اچھے اچھے نقادوں کو بھی ایسے موازنے کی طرف لے جاتی ہے.میرے نزدیک مرثیہ مرنے والوں کی یاد نہیں بلکہ موت کو حیات بخشنے والوں کے لیئے کہا جاتا ہے اور یہی فرق مرثیے کو بالعموم اور اردو مرثیے کو بالخصوص مروجہ اصطلاحات سے الگ اور ممیز کرتا ہے.کربلا کا واقعہ کوئی محض ایک جنگ یا حادثہ نہیں تھا بلکہ حشر تک کے لیئے منشورِ حسینی پر خونِ شہدا کی مُہر ثبت کرنا تھا.

میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اس قسم کے موازنے کرنے والوں نے جتنا وقت ایسے موازنوں کی تحقیق میں خرچ کیا ہے اگر اسکا نصف بھی انیس اور دبیر شناسی میں لگا لیتے تو شاید ایک تو خود انہیں حقیقی مرثیے سے آگاہی ہو جاتی اور دوسرے انیس کے ساتھ ساتھ دبیر کو، انکے مقام کو،انکی فکر اور وجدان کو سمجھ پاتے.اردو مرثیے کو دوسروں نے جو نقصان پہنچایا سو پہنچایا میں ذاتی طور پر اپنے ہی قبیل کے لوگوں کو اسکا زیادہ ذمے دار گردانتا ہوں کہ انہوں نے ایک خاص فکر کے لوگوں کی کوششوں کو کامیاب کرنے میں لاشعوری طور پر خود اپنا بھی کردار ادا کیا جو بحر صورت ایک منفی کردار تھا.ایک طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ہم میں سے ایک غالب اکثریت تنقید اور تنقیص کے درمیان ایک باریک سی لائن کے فرق کو نہیں سمجھ سکی.ایسے لوگ کسی فن پارے،ادب پارے یا پھر کسی ادبی شخصیت کی تعریف کرنے پر آئیں تو اسے نبی کے قریب لے جائیں اور اگر اسکی خامیاں اور نقص بیان کرنے لگیں تو نعوذ باللہ اسے شیطان کا ہم عصر بنا دیں.یہ بھی تو ایک تعصب ہی ہے نا.۔ہم تنقید کے نام پر جو بے مقصد اور بلا جواز تعریف کے پُل باندھتے ہیں وہ دراصل مضمون اور نفسِ مضمون دونوں سے ناآشنائی ہوتی ہے جسے خالی خولی الفاظ کا جامہ پہنا کر خوبصورت فقروں اور مرصع زبان کی اوڑھنی اوڑھا دیتے ہیں جسکی تہہ میں غوطہ زن ہونے کے باوجود حاصل کچھ بھی نہیں ہوتا.اردو مرثیے کو پہنچنے والا ظاہری نقصان دراصل انیس و دبیر کو پہنچا ہے.اگر سچ کہوں تو مرثیے کو کوئی ایسا نقاد ملا ہی نہیں جو اس سیپ کے اندر چُھپے موتی کی چمک کو دوسروں کی آنکھوں میں اتار سکتا.آج تک مرثیے پر ہونے والی زیادہ تر تنقید اور تحقیق بھی شخصیات کے تناظر میں ہوئی ہے صنف کے حوالے سے نہیں اسی لیئے شخصیت بدلنے کے ساتھ تنقید کی صورت بھی تبدیل ہوتی رہی ہے.میری یہ بات شاید بہت سے لوگوں کو قابل قبول نہ ہو کہ مرثیے کے اکثر ناقدین ایسے ہیں جنہوں نے خود ایک آدھ مرثیہ تو کیا مرثیے کا ایک بند یا بیت بھی نہ لکھی ہو.انہیں اس امر کا احساس اور ادراک ہی نہیں کہ مرثیہ نگار کس طرح کربلا میں خود اترتا ہے اور کیسے ہرشہید کے ساتھ خود بھی نزع کے عالم سے نکل کے آتا ہے.مرثیہ نگار کی مرثیہ لکھتے وقت کی کیفیت یا تو خود مرثیہ نگار جانتا ہے یا پھر اسکا پروردگار.ڈیڈھ دو سو بند کا مرثیہ لکھنے کے بعد وہ جب ایک لمبی سانس لیتا ہے تو اسے اپنے زندہ ہونے کا احساس ہوتا ہے.میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر ہم جیسے طالبعلم مرثیہ نگار لکھتے ہوئے اس کیفیت اور حالت سے گزرتے ہیں تو ان خدایانِ سخن کا کیا حال ہوتا ہو گا جنکے سیکڑوں مرثیوں میں سے کسی ایک مرثیے پر

صرف آج ہی کا نہیں بلکہ ماضی کا بھی نتقید نگار تنقید کی ایک ضخیم کتاب تیار کر لیا کرتا تھا.اس حقیقت سے تو انحراف نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے ہاں مرثیے پر جس جس حوالے سے جو کام ہوا ہے وہ زیادہ تر انیس کے مراثی پر ہے اور دبیر پس منظر میں چلے گئے ہیں.اگر اعتراضات اور تنقید کی بات ہے تو ھیئت،مضمون،تکنیک اور نہ جانے کتنے ہی حوالوں سے توجیحات اور توضیحات کے در تو ہر وقت کھلے رہتے ہیں لیکن اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ دبیر بھی انیس ہی کی طرح مرثیہ نگار تھے تو پھر ایسے میں دبیر سے یہ سلوک کیوں روا رکھا گیا جبکہ انیس کی وفات خود دبیر جیسا قادرالکلام ولسان یوں کہتا ہے

آسمان بے ماہ کامل سدرہ بے روح الامیں

طور سینا بے کلیم اللہ منبر بے ا نیس

کسی صاحبِ کمال و فن کا کسی دوسرے ایسے صاحبِ کمال و فن کا اعتراف کرنا خود اسکی عظمت کی دلیل ہوتا ہے۔میں اپنی اس رائے پر دیگر محققین اور ناقدین کی توجہ کا بھی طالب ہوں کہ انیسئے اور دبیریئے کی تفریق صریحاً ایک سوچی سمجھی سازش تھی.میں تو ذاتی طور پر انیس و دبیر کے موازنے کا بھی حامی نہیں ہوں وہ اس لیئے کہ یہ دونوں خدایان سخن اپنی اپنی جگہ پر ایک مستند یونیورسٹی ہیں.راستے الگ الگ ہو سکتے ہیں لیکن دونوں کی منزل ایک ہے.یہیں جملہ معترضہ کے طور ایک بات یہ بھی کہتا چلوں کہ بد قسمتی سے یہ تقسیم کی فضا آج بھی مرثیے میں کسی نہ کسی انداز سے موجود ہے جس سے پھر مرثیے کو ہی نقصان پہنچ رہا ہے ہاں ہو سکتا ہے کہ شخصیات کو کوئی فائدہ ضرور ہو رہا ہو.میرے بزرگ دوست،محقق،ادیب اور شاعر سید عاشور کاظمی نے جدید مرثیہ اور آغا سکندر مہدی کے حوالے سے اپنی کتاب ’ مرثیہ نظم کی اصناف میں‘ میرے انہی خیالات کی ترجمانی کی ہے.

صاحبو ہمیں معلوم ہے کہ اقلیم مرثیہ میں دو جنگجو اور جفاکش قبائل رہتے ہیں جو انیسئے اور دبیریئے کہلاتے ہیں ایک زمانہ تھا

کہ ان دونوں قبائل کے درمیان اس اقلیم کی حکومت مطلق حاصل کرنے کے لیئے صبح و شام گھمسان کا رن پڑتا تھا لیکن

جب سے جدید مرثیے کا دور آیا ہے ان کے اختلافات میں شاید کچھ کمی آ گئی ہے اس کا اندازہ برسوں سے جاری جنگ میں

سیز فائر سے ہوتا ہے جسکا سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پرانے سردارانِ قبائل کے بعد اب نئی نسل نے وقت کا مزاج سمجھ لیا ہو

یا پھر جدید مرثیے کا مشترکہ دفاع مقصود ہو‘.

مجھے عاشور صاحب کی رائے سے اتفاق ہے لیکن صرف اتنی سی گزارش ہے کہ اگر وہ جدید مرثیے کی بجائے صرف مرثیے کا لفظ استعمال کرتے تو انکی دلیل میں مزید وسعت بھی آتی اور پھر جدید،قدیم،جدید تر، کلاسیکل اور ایسی ہی اصطلاحات کی بھول بھلیوں میں خود مرثیہ گم نہ ہو جاتابحر حال یہ بات سچ ہے اور فقط سچ ہے کہ ہمیں پہلے سے زیادہ آج مرثیے پر ہونے والے حملے کا مشترکہ دفاع کرنے کی ضرورت ہے ورنہ خود اہلِ ادب میں جن نام نہاد ادبی مجاوروں نے مرثیے کو مسلکی اور مذہبی شاعری قرار دیکر اسے اصناف ادب سے نکال باہر کیا ہے وہ اپنے ارادوں اور سازشوں میں مکمل طور پر کامیاب ہو جائیں گے. یہ بھی درد دل بیان کرتا چلوں کہ میں نے خود گزشتہ دو تین سال کے عرصے میں کم از کم دس سے پندرہ افراد سے نہایت درد مندانہ درخواست کی کہ خدا را اس عہد کے تقاضوں کو سمجھیں اور کوئی مرثیے کی مخصوص ویب سائٹ تخلیق کریں جس میں صرف مرثیے کی بات ہو اور جس میں ہم اپنے مشاہیر کو زندہ رکھ سکیں مگر افسوس میری یہ درخواست ابھی تک صدا بصحرا ہے.اس موضوع پر پھر کبھی سہی اسوقت ذکر دبیر کے حوالے سے مرثیے کے خلاف ہونے والی سوچی سمجھی سازش کا ہے.یہ بات درست ہے کہ مرثیہ فقط رونے رلانے کی چیز نہیں اور اس سے کسی کو اختلاف بھی نہیں لیکن ایک بات یہ بھی محلِ نظر رہے کہ مرعثیے میں رونا کوئی بے بسی اور لاچاری کا رونا نہیں بلکہ حالات کا رونا ہے کہ کلمہ گو اور رسولِ ختمی مرتبت کے نام لیوا خود انکی آل اولاد سے کیا سلوک کر رہے تھے اور کس لیے۔؟تعصب کی عینک کے بغیر دیکھیں تو مرثیہ تو کربلا کی طرح ایک مکمل انقلاب ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ انقلابی نعرے اور مرثیے میں زمین آسمان کا فرق ہے.کربلا تو ایسا انقلاب تھا کہ جس کی تیز لہروں کی آواز آج بھی ہر ظلم،ہر آمر اور ملوکیت پسند کے ایوان میں سنائی دیتی ہے.

کربلا میں سر نہ دیتے گر حسین ابن علی

ہر زمانے میں یزید وقت بیعت مانگتے

تاریخ انسانیت میں کربلا سے بڑا انقلاب تو رونما ہوا ہی نہیں لیکن عجب طرفہ تماشہ ہے کہ کربلا اور مرثیے کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہوا ہے اور دونوں کو فقط شیعہ مسلک سے نتھی کر کے رکھ دیا گیا جس کا براہ راست نقصان انیس کو ذرا کم دبیر کو اس سے زیادہ اور سب سے زیادہ خود مرثیے کو ہوا.آئیے بات کو مزید مدلل انداز میں کریں.انیس 1802 یا 1803 میں اور دبیر 1803 میں پیدا ہوئے اور پھر انیس 1874 میں اور دبیر 1875 میں راہئی ملکِ عدم ہوئے.یہ کوئی اتفاق نہیں تھا بلکہ خالقِ لوح و قلم نے عظمت قلم کے لیئے یہ اہتمام خود کیا تھا کہ ایک ہی وقت میں ایک زمین پر دو آسمان اتارے اور پھر اس ناقدر زمانے سے یہی دونوں آسمان ایک ہی وقت میں واپس لے لیئے اور اب بے چھت کے صحرائے ادب میں ہم جھلس رہے ہیں مگر احساس تک نہیں.انیس کے مقابلے میں دبیر کے لیئے ایک عمومی بات ہم مشکل پسندی کی کرتے ہیں لیکن یہ بات تو ہم نے اپنی آسانی کے لیئے بنائی ہے پھر اگر ایک لمحے کے لیئے یہ مان لیں کہ دبیر کے مقابلے میں انیس کو زیادہ مشہوری اور پزیرائی ملی اسکی وجوہات چاہے کچھ بھی بیان کی جاتی ہوں تو پھر ایسی صورت میں دبیر کا خود کو منوانا کیا خود انکی قادر الکلامی کی دلیل نہیں؛دبیر اپنے عہد میں بھی خاصی مخالفت کی مزاحمت کر کے زندہ و پائیندہ رہے لیکن بعد میں بھی ہر طرح کی مخالفت کے باوجود آج تک افصح الفصحا اور ابلغ البلغا ہیں.یہی وجہ ہے کہ انیس کے برعکس شاید دبیر پر انکے فنی شعور،زبان اور کلام پر بحث کرنا نسبتاً مشکل ہے.دبیر کو دراصل موجد شاعر کہنا چاہیئے اور پھر یہ انفرادیت بھی تو کم نہیں کہ جس عہد میں دربار داری نشان عظمت تھی وہ دربارِ اہلیبیت کے علاوہ کسی دربار سے وابستہ نہیں تھے اور شاہزادوں اور امیرزادوں سے تعلق خاطر کے بھی خواہاں نہ تھے.دبیر کی شاعری کا ایک بہت ہی منفرد سا نکتہ ہمارے ناقدین سے یکسر اوجھل رہا ہے اور وہ عدم یقین کا خاتمہ اور یقین کو یقین کامل کی حد تک پہنچانا ہے.

تاریخِ اردو ادب کی کربلا میں ہونے والا یہ ایک عجیب ظلم ہے کہ سر سید کے رفیقِ کار۔خلیفہ ہارون رشید، امام ابو حنیفہ،امام غزالی اور دیگر متعدد مشاہیرِ اسلام پر کئی کتابیں لکھنے والے اور سیرۃ النبی سے شہرت دوام حاصل کرنے والے مولا نا شبلی نعمانی(1947۔1857) کو دبیر میں کوئی ایسی خوبی نہ مل سکی جو اسے انیس سے بڑھ کر نہیں تو انکے ہم پلہ ہی بنا سکتی.میرے لیئے تو ایسے موازنے ہیں ہی بے مقصد لیکن چونکہ اسی موازنہ انیس و دبیر کے حوالے سے اکثر لوگوں نے اپنے مفاد کے لیئے شبلی کو مرثیے کی تنقید پر حرف آخر سمجھ لیا ہے لہٰذا اسی غلط فہمی کو دور کرنے کے لیئے چند حقائق کا بیان ضروری ہے جن کے تناظر میں اس موازنے کا تنقیدی اور تحقیقی آپریشن کیا جا سکے.میںنے پہلے عرض کیا کہ انیس 1873 میں اور دبیر 1874 میں وفات پا گئے جبکہ شبلی نعمانی کی پیدائش 1857 میں ہوئی لیکن موازنے کے فقروں کی ساخت اور بیان کا انداز دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے انیس و دبیر کے درمیان شبلی کی طرف سے قرار دی جانے والی چپقلش خود انکی آنکھوں کے سامنے پروان چڑھی اور دشمنی کی حد تک موجود رہی.ممکن ہے بہت سے لوگوں کے نزدیک یہ تحریر کی خوبی ہو مگر سفر نامے ،افسانے ،ڈرامے ، تاریخ نگاری اور تنقید نگاری میں فرق ہوتا ہے اور یہی وہ عنصر ہے جو شبلی کی باقاعدہ حکمت عملی کی نشاندہی کرتا ہے. اردو مرثیے کے نامور محقق،نقاد اور میرے مربی ڈاکٹر اسد اریب نے ’اردو مرثیے کی سر گزشت‘ میں اسی المیے کی طرف اشارہ کیا ہے.

موازنہ ۔شبلی نے فکری غنودگی کے عالم میں لکھا.اس میں واقعاتی صداقتیں کم اور بد احتیاطیاں زیادہ ہیں.فصاحت و بلا غت کی

تشریح بھی درست نہیں اور صنعتِ تنسیق الصفات کی تعریف بھی غلط ہے.ان علمی اور ادبی نقائص سے قطع نظر اردو کے ایک کم

مرتبہ شاعر کو خاتم الشعرا کہہ کر اردو غزل کے امیج کو بگاڑ دیا ہے‘ موازنہ تنقیصِ دبیر کی ایک ناکام کوشش ہے.مورخوں کا قلم تاریخ

لکھ سکتا ہے تاریخ بنا نہیں سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آبِ حیات پہلے پہل آئی تو اسمیں دبیر کا تذکرہ نہ تھا اہلِ نظر نے شور مچایا

اور کہا کہ تاریخ میں خیانت کی گئی ہے اور پھر مصنف نے دوسرے ایڈیشن میں اسکی معذرت کر لی اور تلافی بھی مگر شبلی نے سب

کی سنی ان سنی کر دی اور دلائل کی دنیا سے منہ پھیرے رکھا انہوں نے دبیر کو پورے طور پر پڑھا بھی نہیں اور دبیر پر کوئی تحقیق

بھی نہیں کی اور میر صاحب کے تفوق پر ایک رائے قائم کر بیٹھے‘.

ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کے نزدیک اس رائے کا پیمانہ کچھ شدید ہو لیکن اس میں ڈاکٹر اسد اریب نے جو دعوے کیئے ہیں کیا ا س سے اختلاف ہے اور اگر نہیں تو پھر میری اس بات میں وزن ہے کہ شبلی نے ایک بنے بنائے ذہنی ڈھانچے کے تحت اس موازنے کو تحریر کیا جو کسی طرح سے موازنہ نہیں.موازنہ میں یہ کب ہوتا ہے کہ موازنہ کی جانے والی دو چیزوں میں سے ایک کے بارے میں تو سب کچھ بالتصریح کہا جائے اور دوسرے کے بارے میں فقط واجبی اور سطحی باتیں.کسی بھی موازنے کی پہلی اور بنیادی شرط اور ضرورت دونوں اطراف کا نہایت ایمانداری سے مطالعہ اور بے لاگ رائے ہے ہاں لکھنے والے کو اپنی آرا کا اختیار ہے لیکن کسی بھی قسم کے تعصب کے بغیر.مجھے یہ کہنے دیجئے کہ شبلی نے یاتو دبیر کا مطالعہ نہیں کیا اور اگر کیا ہے تو پھر واجبی سا.چلیئے اگر اس بات کو تسلیم بھی کر لیا جائے کہ یہ سب انہوں نے مفصل اور عمیق مطالعے کے بعد لکھا ہے تو پھر اسے محققانہ اور ناقدانہ تحریر نہیں کہہ سکتے ہاں کہنا چاہیں تو عالمانہ کہہ لیجئے۔میں تو یہ بھی سمجھتا ہوں کہ شبلی اچھے دور میں پیدا ہوئے تھے اس کہ اسوقت تفتیش وتحقیق کے لیئے ابھی دروغ گفتنی پکڑنے کا آلہLIE DETECTOR دریافت نہیں ہوا تھا لیکن ضمیر تو اس زمانے میں بھی زندہ ہوتا تھا.

اب یہ بھی محلِ نظر رہے کہ اسوقت بھی کوئی یہ صورت نہیں تھی کہ سب نے شبلی کے موازنے کو من و عن تسلیم کر لیا.بہت سی کتب اس موازنے کے جواب میں تحریر ہوئیں جنکی تفصیل کا یہ موقع نہیں.یہ بھی سچ ہے کہ کم از کم ہر لکھنے والے نے اپنے اپنے انداز میں یہ تسلیم کیا کہ شبلی نے موازنے کا حق ادا نہیںکیا.ڈاکٹر اسد اریب نے ہی ’ اردومرثیے کی سر گزشت‘ میں آگے چل کر لکھا ہے.

’ شبلی کا موازنہ انیس و دبیر توہین فکر کا ایسا مظہر ہے کہ اگر دبیر زندہ ہوتے تو شبلی پرہتک عزت کا دعویٰ ضرور کرتے.دبیر کے

ساتھ یہ نا انصافی اس شخص نے کی جو پیغمبرِ آخر کا سیرت نگار تھا جس نے عرب و عجم کے تاریخی واقعات رقعم کیئے اور جو اسلامی

اخلاق کا مورخ سمجھا جاتا ہے.توقع تو یہ تھی کہ اسلامی تاریخ کامورخ ادب میں تعصب سے بری ہو گا،

منصفانہ فیصلہ کریگا اور سچ باتیں لکھے گا لیکن ایسانہیںہوا اور اس طرح اردو میں تنقید نگاری کو تو ضعف پہنچا

مگر خود شبلی کی ناقدانہ عظمت کم ہو گئی۔۔۔عالمانہ بصیرت کا تقاضہ تو یہ تھا کہ پہلے سے قائم کردہ تاثر کے

بغیر دونوں شاعروں کا متوازی مطالعہ کیا جاتا ایک ہی مضمون اور تخیل کے یکساں اشعار سامنے لائے

جاتے اور دونوں شاعروں کے تفصیلی محاکمے میں غیر جانبداری برتی جاتی لیکن ایسا ہو ا نہیں

۔۔۔۔۔شبلی دراصل انیس کے کلام کی خوبیوں کا تذکرہ کر کے اُس دور کے انیس پسند معاشرے میں

نیک نامی حاصل کرنا چاہتے تھے‘.

ڈاکٹر اسد اریب کا یہ تجزیہ کسی انیس دشمنی اور فقط دبیر دوستی کے کھاتے میں نہ ڈالا جائے بلکہ موازنے کاا س فکر کے ساتھ بھی مطالعہ کیا جائے تو شاید کیا بلکہ یقیناً میری اس بات کی تائید ہو جائے گی کہ شبلی کی یہ ایک باقاعدہ منصوبہ بند اور مختلف الھداف حکمت عملی تھی.میںعرض کرؤں کہ ہم مرثیے کے طالب علموں کو انیس کی مدح سے خدا نخواستہ کوئی چڑ نہیں اور کیوں ہو کہ خدائے سخن کی مدح ہے لیکن شبلی کی یہ مدح حُبِ علی میں نہیں.اس کے مقاصد کچھ اور تھے.

حیاتِ انیس ‘ کے مصنف مولوی امجد علی نے اس کتاب کے دیباچے میں اس بات کو بھی واضع کیا ہے کہ خود شبلی نے 1898 میں اُن سے یعنی مولوی امجد علی سے انیس کے بارے میں ایک کتاب لکھنے کو کہا اور مدد کا وعدہ بھی کیا۔مولوی صاحب نے اس پر کام شروع کر دیا اور ابھی انکی کتاب مکمل نہیں ہوئی تھی کہ شبلی نے 1903 میں موازنہ لکھ ڈالا اور 1907 میں اسکی اشاعت ہو گئی.اب ذرا آپ خود ہی شبلی کی نفسیات کا اندازہ لگا لیں کہ خود ایک شخص کو ایک رائے دیکر خود ہی اسے بغیر مطلع کیئے خاموشی سے (وسیع تر معنی میں) خود اپنا کام کر گئے. اطلاقی نفسیات کے مضمون سے واقف حضرات اس ذہنی کیفیت کو سمجھ سکتے ہیں کہ یہ باقاعدہ ایک مکمل حکمت عملی تھی.انہوں نے صورت حال کا خوب خوب فائدہ اٹھایا کیونکہ انہیں اس امر کا ادراک تھا کہ مرثیے اور مرثیہ نگار کے بارے میں اسوقت تک ناقدانہ انداز میں کوئی کام نہیں ہوا تھا ماسوائے مولانا محمد حسین آزاد نے آبِ حیات میں ایک سرسری سی کوشش کی اور پھر مولانا الطاف حسین حالی نے مقدمہ شعرو شاعری میں بھی مرثیے کو موضوع سخن بنایا مگر یہ سب کچھ بالتفصیل نہیں بلکہ بالاختصار تھا. اب یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کیونکہ اسوقت اس موازنے کا بالصراحت تنقیدی جائزہ نہیں لیا گیا اس لیے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شبلی کی باتوں کو ثقہ تسلیم کیا جانے لگااور پھر جب نصابی کتب میں بھی انہی تنقیدی گوشوں کو شامل کیا گیا تو یہی خیالات طالب علموں کے اذہان میں بھی جڑ پکڑ گئے اور دبیر انیس کے مقابلے میں چھوٹے سے چھوٹے ہوتے دکھائی دینے لگے.میں جو یہ کہتا ہوں کہ شبلی نے انیس کی مدح حُبِ علی میں نہیں کی تو اسکی بے شمار وجوہات ہیں اور بذات خود یہ موضوع ایک طویل مضمون کا طالب ہے ہاں ایک بات ضرور کہتا چلوں کہ اگر شبلی کی زندگی اور انکے کام کے طریقوں پر آپ ایک نظر ڈالیں تو یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ انہیں اس قسم کی تحریروں سے دلچسپی تھی جس سے مناقشے کی صورت پیدا ہو.اس سے تو کسی کو انکار نہیںکہ ہندی النسل شبلی ادبی شورش پسندی کے دلدادہ تھے اور مزاج میں دربارداری اور ہنگامہ بازی بھی تھی لیکن اس کے برعکس دبیر سادہ منش،گوشہ نشین اور آج کی اصطلاح میں تعلقات عامہ کے فن سے نا آشنا تھے.یقین کریں یہ بھی ایک وجہ تھی کہ شبلی نے تعصب کی عینک پہن لی تھی اور وہ دبیر کو، انکے کا م کو اور فنی محاسن کو اسی عینک سے دیکھتے تھے.کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ شبلی مزاجاً اقلیت کی طرفداری نہیں کر سکتے تھے اور انیس کا حلقہ اثر بلا شبہ بڑا تھا.میرے نزدیک یہی معیار کربلا کے سارے فلسفے کی نفی کرتا ہے کیونکہ کربلا نے تو قلت و کثرت کے معنی بدل کے رکھ دیئے ہیں.میں تو یہ کہتا ہوں کہ انیس و دبیر میں سے کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت دلوانے کی مساعی ہے ہی ایسے اذہان کی پیداوار ورنہ ان خدایان سخن کے درمیان جو روابط تھے انکی تفصیل بھی تو کتب میںموجود ہے.نیر مسعود کی کتاب ’ معرکئہ انیس و دبیر ‘ میں بھی اس حوالے سے خاصا مواد ہے اور انہوں نے یہ بات بہت خوبصورت انداز میں کسی حد تک ثابت بھی کی ہے کہ ’ انیس و دبیر کے درمیان جو صورت تھی اگر اسے چپقلش کہا بھی جائے تو وہ معمولی اور زبانی کلامی تھی وگرنہ مجموعی طور پر دونوں کے روابط اور تعلقات بہت اچھے تھے‘ . یہی وہ نکتہ ہے جس پر میں بار بار زور دیتا ہوں کہ اگر آج کی مروجہ اصطلاح میں اُسوقت انیسئے اور دبیرئیے تھے بھی تو اتنے شدت پسند نہیں تھے اور یہ منقسم سی صورت ادبی تھی جانی دشمنی نہیں تھی لیکن مرثیے میں باقاعدہ دو سکولوں کی بنیاد شبلی نے ثابت کرنے کی کوشش کی اور جہاں بھی دو کی بات ہو گی وہاں دو کے درمیان ایک لائن ضرور کھچے گی چاہے وہ کتنی باریک ہی کیوں نہ ہو.شبلی کے موازنے سے جو انیسئے اور دبیرئیے پیدا ہوئے وہ شدت پسند گروہ تھے اور اس ساری محاذ آرائی میںمرثیے کی اکائی پس منظر میں چلی گئی اور ساری توجہ صنف مرثیہ سے ہٹ کر شخصیات پر مرکوز ہو گئی جس سے سراسر نقصان مرثیے کا ہوا.یہ وہی نقصان ہے جو اسلام کو بھی اسی فلسفے کے تحت پہنچا کہ جب اسلام میں شخصیت پسندی شخصیت پرستی کاروپ دھار گئی تو اسلام کے مقصد پس منظر میں چلے گئے اورشخصیات ابھرنے لگیں.میں اگر غلط نہیں تو آج کے بھی انیسئے اور دبیرئے(اگر موجود ہیں تو) سے پوچھئے تو انہوں نے انیس و دبیر کا سرسری مطالعہ بھی نہ کیا ہوگا مگر انکی گروہ بندی شبلی کے موازنے پر انحصار کرتی ہے.یہ بالکل اسی طرح ہے کہ شاتم رسول سلمان رشدی کی کتاب ( بقول اسکے شیطانی آیات) پر اسقدر خون خرابہ ہوا تو میں نے بذات خود مظاہرہ کرنے والے اور جان تک دینے کے خواہاں اصحاب سے یہ پوچھا کہ کیاآپ نے رشدی کا یہ ناول یا اس کے اقتباسات ہی پڑھیں ہیں تو نوے فیصد سے زائد کا جواب نفی میں تھا.دراصل ہجوم کی نفسیات بھی یہی ہے اور شاید شبلی ہجوم کی اس نفیسات سے بخوبی آگاہ تھے.میں یہ وضاحت بھی کرتا چلوں کہ مجھ ہیچ مداں کو شبلی کی عالمانہ کاوشوں سے کوئی انکار نہیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ انکی ہر بات کو کسی تحقیق کے بغیر سچ اور درست مان لیا جائے.میں انیس و دبیر تو کیا آج 2007 میں بھی مرثیہ کہنے والوں کے درمیان فکر،شعر،حسن معانی،علمیت،تصوف،اثر انگیزی،غم انگیزی،منظر کشی،بین،مصائب،تخیل، الفاظ ،بندشوں اور انتخاب مضامین کی بحث میں پڑنے کا قائل نہیں کیونکہ میرے نزدیک(یہ کوئی سیاسی بیان نہیں ہے) ہر ایک مرثیہ نگار اپنے اپنے انداز میںاور مقدور بھر مرثیے کی خدمت کر رہا ہے اور اپنی اپنی ذات میں ایک روشن چراغ ہے ہاں کسی چراغ کی روشنی کم اور کسی کی زیادہ ضرورہے لیکن یہ جو آسمانِ مرثیہ تمامتر متعصبانہ مخالفتوں کے باوجود اسقدر روشن روشن ہے تو یہ انہی سارے چراغوں کی مشترکہ روشنی ہے.

دبیر کے ہاں ایک احساس بڑی شدت سے تھا کہ کلام کا ڈھانچہ صرف لفظوں کی بنیاد پر کھڑا نہ ہو بلکہ اندر کی آواز زیادہ صاف اور موثر ہو کہ یہی آواز صدائے زندگی بن سکے.انیس اور دبیر کا یہ احسان بھی کم نہیں کہ ان دونوں نے مرثیے اور مرثیے کے عہد کو اس طرح خوبصورت بنا دیا کہ مرثیہ شاعری میں بالخصوص اور اردو ادب کی تاریخ میں بالعموم بحث کا موضوع قرار پایا. میں اہلِ علم حضرات کی توجہ ایک اور نکتے کی طرف بھی دلواناچاہتا ہوں کہ شبلی کے موازنے کی زبان اور بیان مماثلی نہیں تقابلی ہے اور جہاں تقابل کی بات ہو وہاں لا محالہ ایک کو دوسرے پر فوقیت دلانے کی کوشش کی جاتی ہے اب چاہے ایسا کرنے والا کھُل کر اس کا اظہار کرے یا نہ کرے.شبلی نے اس موازنے سے ساری فضا ہی تقابلی بنا دی تھی جس سے صرف دبیر ہی نہیں انیس شناسی میں بھی مشکل در آئی اور ناقدین نے انیس و دبیر کے فنی محسن کا الگ الگ نہیں بلکہ موازنے کی نفسیاتی کیفیت میں مطالعہ کیا.انیس کو تو پھر بھی کسی حد تک پڑھا گیا لیکن دبیر کی غیر مطبوعہ کاوشوں کو تو الگ رکھئے مطبوعہ ’دفتر ماتم‘ کی بیس جلدوں کا مکمل اور عمیق مطالعہ کس نے کیا ہو گا.یہ بات شاید بہت سے اصحاب کے لیئے متنازعہ ہو کہ مرثیے کا شاعر بالخصوص الہامی کیفیت میں رہتابھی ہے اور اس سے گزرتا بھی ہے اسی لیئے دبیر کا خود یہ کہنا کوئی شاعرانہ سی بات نہیں بلکہ نزولی پیغام کی ترسیل ہے.

ہر مرثیے میں موجدِ طرزِ جدید ہوں

یا پھر

مضمون نئے کرتا ہوں ایجاد ہمیشہ

یہ دعویٰ مجھ جیسے طالب علم کا نہیں جس نے قافیہ پیمائی کے لیئے شدید کے زور پر جدید لگا دیا ہو بلکہ خدایانِ سخن میں سے ایک کا ہے.میں حیران ہوں کہ شبلی کی نظر سے یہ مصرعے بھی نہیں گزرے اور گزرے تو پھر انہیں غلط ہی ثابت کر دیتے.ہاں دیکھنا یہ ہے کیا دبیر کے ہاں بھی لفظِ ’جدید‘ کے وہی معنی ہیں جو ہمارے ذہنوں میں ہیں.اسی نکتے کو برادرم ہلال نقوی نے اپنے مقالے ’ بیسویں صدی اور جدیدمرثیہ‘ میں خوب مدلل انداز میں پیش کیا ہے اور مجھ جیسے کم علم لوگوں کی یہ گتھی سلجھا دی ہے.میں ہلال کی اس توضیح کو پڑھ کر کئی مرتبہ یہ بھی سوچتا ہوں کہ اگر دبیر خود بھی ’جدید‘ کی تعریف کرتے تو شاید اسی طرح ہوتی. ہلال نقوی لکھتے ہیں.

دفترِ ماتم کی بیس جلدیں دیکھنے کے بعد دبیر کے جس رنگِ سخن کی تصویر سامنے آتی ہے اس میں قوت متخیلہ کا شکوہ

بھی ہے ،خیال آفرینی کا جوہر بھی،استعارات و تشبیہات میں ندرت بھی،تراکیب میں جدت اور مبالغے میں

شدت بھی،صنائع و بدائع کی کثرت بھی اور مصائب کو تفصیل سے بیان کرنے کا رجحان بھی۔۔۔۔۔۔

۔۔۔اپنے متقدمین مرثیہ گو شعرا کے مقابلے میں انکا یہی طرز جدید ہے جس میں وہ اپنا ثانی نہیں رکھتے.

دبیر کے فن مرثیہ گوئی کا کلیدی پہلو انکا جزبۂ ایجاد و اختراع ہے اور یہ رو انکے تقریباً ہر مرثیے میں نظر آتی ہے‘

یہ عجیب سی بات ہے کہ ہلال نقوی تو شبلی نعمانی نہیں ہو سکتے لیکن انہیں تو دبیر کے ہاں یہ سب کچھ دکھائی دیتا ہے لیکن شبلی کو نہیں.صاحبو یقین کریں یہ سب نیت کا معاملہ ہے،خدارا یہ نہ سمجھئے گا کہ میرا مقصد اس طرح شبلی کے قد کو کم کرنا ہے (میں کیا میری اوقات کیا) ہاں اس حقیقیت کی طرف توجہ ضرور دلوانا ہے کہ دبیر کے کلام کو سمجھنے کے لیئے عمیق اور تفصیلی مطالعے کی ضرورت ہے جو شبلی یا تو کر نہیں پائے یا عمداً انہوں نے کیا نہیں اور اگر کیا بھی ہے تو اسکا ایماندارانہ اظہار نہیں کیا.بس یہی تین جہتیں ہیں اگر کوئی چوتھی جہت ہو تو میرے علم میں بھی اضافہ ہو گا. پروفیسر احتشام حسین نے اپنے مضمون’ شبلی کی کتاب موازنہ انیس و دبیر‘ میں ایک نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے جسکا ذکر شاید اس لیئے بھی ضروری ہے کہ اس گوشے پر بھی نگاہ ڈالنی چاہیئے.وہ کہتے ہیں.

ان کے عہد کی پیچیدہ اور غیر متوازن سماجی اور تہذیبی نوعیت نے بھی رائے قائم کرنے میں دشواریاں پیدا کی ہیں۔۔۔۔

اپنے ذہن،علم اور جذبات کی پوری قوت سے مسائل کو پرکھنا اور سمجھنا اسوقت اس قدر آسان نہ تھا جتنا آج معلوم ہوتا ہے

اور جو لوگ ان حقائق کا ارداک نہیں رکھتے وہ بڑی معصومانہ جہالت اور سہل پسندی سے سرسید،حالی ،شبلی اور آزاد کے متعلق

لاعلمی،کم بینی اور سطحیت کے فتوے صادر کرتے ہیں اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ سرسید،حالی ،شبلی اور آزاد کے فکری نتائج کا تنقیدی

جائزہ ہی نہ لیا جائے‘

پروفیسر احتشام نے آخری فقرہ لکھ کر فیصلہ صادر نہیں کیا بلکہ بحث کی بجائے فکر کا در کھُلا رکھا ہے .ا نکی یہ رائے سر آنکھوں پر مگر اسکا موازنہ ڈاکٹر احسن فاروقی کی اس رائے سے کیسے کیا جائے جو شبلی کو سرے سے تنقید نگار ہی تسلیم نہیں کرتے اور انکا کہنا ہے کہ۔۔۔

۔ ’ شبلی تنقید نگار نہیں نکتہ چیں ہیں اور بالکل حالی کے انداز میں قوم کی بداخلاق کا رونا روتے ہیں اور مذاق کو صحیح راہ پر

لگانے کا بیڑہ اٹھاتے ہیں.شبلی سے نئی تنقید کے زاوئیہ نظر کو اپنانے اور اصلا حی نکتہ نگاہ سے محفوظ رہنے کی امید دونوں

غلط مطالبے ہیں.‘

پھر کلیم الدین احمد بھی تو یہی کہتے ہیں.

شبلی کاا سلوب۔زاوئیہ نظر،ناقدانہ طرز یہ سب پرانی ہیں جسکا تنقید کی نئی تکنیک اور نئے اصولوں سے کوئی تعلق نہیں‘

صاحبو یہی وہ استدل ہے جو ہمارا بھی ہے کہ شبلی کا موازنہ کوئی حرف آخر نہیں یا پھر آسمانی کتب نہیں جس میں کوئی تحریف یا درستگی نہ ہوسکے اسی لئے جس چیز کی شدت سے ضرورت ہے وہ موازنے پر ناقدانہ نظر کی ہے تا کہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ اول تو انیس و دبیر کے موازنے کی کوئی ایسی ضرورت ہی نہیں تھی اور چلیئے اگر موازنہ کرنا ہی ٹھہرا تو اس مثبت انداز فکر سے کرنا چاہیئے تھا کہ اس سے صنف مرثیہ کو کوئی فائدہ پہنچتا نہ کہ اختلافات دشمنیوں میں بدل جاتے. ویسے موازنے کے شوقین حضرات نے تو یہاں تک بھی کہا ہے کہ انیس بمثل میر تقی میر تھے اور دبیر بمثل غالب کے.کم از کم مجھ جیسا کم علم اور کم فہم اس قسم کے فقروں کے نہ تو اندر چھپے معانی جانتا ہے اور نہ ہی ظاہری وجہ سوائے اس کے کہ ایک تقابلی بات کرنی ہے. ذرا یہ تو سوچیئے کہ کیا شبلی کے سامنے یہ حقیقیت نہیں تھی کہ دبیر لکھنؤ میں انیس سے پہلے شہرت پا چکے تھے اور رجب علی بیگ سرور نے بھی فسانئہ عجائب میں دبیر ہی کا ذکر کیا تھا اور پھر کتنے ہی محققین اس بات کو لکھ چکے ہیں کہ شبلی بلاشبہ کئی مقامات پر اعتدال سے باہر آ گئے ہیں اور یہ بھی صاف پتہ چلتا ہے کہ اُنکا قلم دبیر کی نسبت انیس کے تذکرے میں زیادہ تیزی سے چلنے لگتا ہے. میری اس گفتگو کا یہ مقصد ہر گز نہیں کہ میں بھی بہانے بہانے کوئی موازنہ کر رہا ہوں اور دبیر کو انیس سے بڑھ کر نہیں تو ہم پلہ ثابت کرنے میں کو شاں ہوں جی نہیں میں تو ان دونوں کو خدایانِ سخن کہتا،سمجھتا اور لکھتا بھی ہوں.دونوں کی مرثیہ نگاری کے اختلافی نکات بے حد کم اور مشترکہ نکات زیادہ ہیں ہاں اس سے انکار نہیں کہ دبیر مشکل پسند تھے مگر یہ مشکل پسندی انکی خامی کیسے ہوئی اسے انکی خوبی کیوں نہیں کہا جا سکتا.اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ایک چیز اگر میری سمجھ میں نہ آئے تو میں کو شش کرنے کی بجائے اسے ہی سرے سے غلط قرار دے دوں.دبیر کا شعری مزاج تھا ہی دقت پسندی اور اسی دقت پسندی یا مشکل پسندی کا اظہار انہوں نے صنعت غیر منقوط میں کہے گئے مراثی کی صورت میں کیا ہے جو کسی نہ کسی زاویے سے معجزہ لگتے ہیں.دبیر نے جب اولیں غیر منقوط مرثیہ پڑھا تو 89 بند کے اس مرثیے کو سن کر آتش نے محفل میں ہی کہہ دیا کہ ’ مرزا یہ صنعت آپ نے جس بے تکلفی سے استعمال کی ہے وہ آپ ہی کا خاصا ہے.ہم نے یا تو پہلے تفسیر فیضی کی سنی تھی یا پھر آج یہ مرثیہ غیر منقوط سنا‘

مہرِ عَلمِ سرورِ اکرم ہو ا طالع

ہر ماہِ مرادِ دلِ عالم ہوا طالع

ہر گام علمدار کا ہمدم ہوا طالع

اور حاسدِ کم حوصلہ کا کم ہوا طالع

عکسِ عَلَم و عالَمِ معمور کا عالَم

گہہ ماہ کا،گہہ مہر کا،گہہ طور کا عالَم

دبیر کو شاعری میراث میں نہیں ملی تھی بلکہ یہ انکا ذاتی کمال تھا اور اس کے لیئے انکی مساعی کو نظر انداز کرنا ایک تنقیدی خیانت ہے.صنعتِ تنسیق سمیت دبیر کے کلام کی متعدد خوبیاں ایسی ہیں جنہیں شاید شبلی خوبیاں ہی نہ سمجھتے ہوں. میرے سامنے اسوقت افصح الفصحا،ابلغ البلغا،فخر المتقدمین،استاد المتاخرین،المحقق الکامل،الادیب المدقق،البارع الاریب،برگزیدئہ رب القدیر مرزا سلامت علی دبیر اعلیٰ اللہ درجاۃُ فی الجنان کے دفترِ ماتم کی تمام بیس جلدیں ہیں ان میں سے میری اپنی لائبریری میں موجود جلدِ دوم فیض احمدے پریس لکھنؤ میں میر عبدالحسین کی فرمائش پر شائع ہوئی ہے جس کی ایک اہم ترین بات اس کے سرِ ورق پر دبیر کے فرزند شاعرِ محمد و آلِ محمد مرزا جعفر اوج کی اپنی 1308ھجری کی مہر ہے گویا آج 1425 ھجری میں یہ نسخہ 117 سال پرانا ہے اور اسکی تصحیح کا سر ٹیفکیٹ خود مرزا اوج نے جاری کیا ہے کہ’ یہ کلام ہم نے اپنے کتب خانے سے دیا اور تصیح کا اقرار کیا‘. ایک اور نسخہ سرفراز پریس لکھنؤ کا ہے اور سہارنپور کی کتابوں کی جس دوکان سے خریدا گیا ہے وہ 1874 میں قائم ہوئی تھی اور یہ انیس کے انتقال کا سن ہے گویا دبیر کے انتقال سے ایک سال قبل. اس مجموعے میں 96 نمبر کا مرثیہ ’ جس سے ہو جدا یوسفِ ثانی وہ لڑے کیا‘ اور مرثیہ نمبر 101 ’ جب یوسفِ حسین ہوا گُم سپاہ میں‘ یہ دونوں مرثیے اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ اگر ناقدینِ مرثیہ انہی دونوں مرثیوں کا عمیق جائزہ لیں تو شبلی کے موازنے کی وہ بنیادی خامیاں کھُل کر سامنے آ جائیں گی جنہیں اب دور کرنا یا انکی تصیح کرنا عہدِ حاضر کے نقادوں کی ذمے داری ہے. شبلی کے مطالعے میں شاید دبیر کا یہ معرکۃ الآرا مرثیہ بھی نہیں آیا’کس شیر کی آمد ہے کہ رَن کانپ رہا ہے‘

ناگاہ علم شہ کا چمکتا ہوا آیا

ماتم تھا کہ پنجہ بھی لچکتا ہوا آیا

مشکیزہ بھی بے آب لٹکتا ہوا آیا

اور خون پھریری سے ٹپکتا ہوا آیا

لشکر کی جو زینت کو فضا لوٹ گئی تھی

صدمے سے عَلَم کی بھی کمر ٹوٹ گئی تھی

مجھے یہ علم ہے کہ یہ موضوع کسی ایک مختصر مضمون کا نہیں بلکہ ایک مکمل کتاب یا متعدداقساط کا طالب ہے اور پھر یہ بات بھی کوئی ایسی نئی نہیںکہ جو سب کو چونکا دے لیکن اس ساری گفتگو کا مقصد یہ دلی تکلیف ہے کہ ماضی کے نقادوں سے گلہ بجا مگر عہدِ حاضر کے نقادوں سے کون گلہ کرے گا کہ وہ بھی شبلی کے اس موازنے کو مرثیے کی تنقیدی تاریخ میں سر فہرست جگہ دیتے ہیں.اس دور میں جب تحقیق کے سائینسی طریقے ا ور تکنیک کے جدید انداز میسر ہیں تو اردو ادب کے نقادوں پر عموماً اور مرثیے کے نقادوں پر خصوصاً یہ ذمے داری فرض کی حد تک عائد ہوتی ہے کہ وہ دبیر اور انیس کے اختلافی عناصر کی بجائے ہم آہنگ اور مماثل نکات کو لوگوں کے سامنے لائیں اور اُس تنقیدی سازش کو طشت از بام کریںجس نے مرثیے کے درمیان دیوارِ برلن کھڑی کر دی ہے ایسی دیوارجواصل صورت میں گرنے کے باوجود شہرِ مرثیہ کے درمیان یونہی کھڑی ہے.1907 میں شائع ہونے والے شبلی کے اس موازنے کے جواب میں پہلی کتاب دبیر کر فرزند مرزا اوج کے شاگرد نظیر الحسن فوق نے المیزان کے نام سے لکھی تھی اور اسکی پیشانی پر سورئہ شعرا کی یہ آیت رقعم ہے ’ اور ترازو کو سیدھا رکھ کر تولا کرؤ‘ عجب بات تو یہ ہے کہ خود شبلی نے فوق کی اس کتاب کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ المیزان کی اشاعت کے بعد مجھے موازنے کی قدر معلوم ہوئی کیونکہ اس بہانے اردو میں ایک اچھی کتاب (المیزان) کا اضافہ ہو اہے‘

آئیے اب ذرا تھوڑی دیر کے لیئے نہایت صائب الرائے اور نامور اہلِ دانش کی نظر سے شبلی کے اس موازنے کو دیکھیں.

نظیر الحق فوق کہتے ہیں .

افسوس کہ شبلی نے دبیر کی مخالفت میں انکے کمالات کو کم سے کم کرنے کی کوشش میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا‘

افضل حسین ثابت کا کہنا ہے کہ.۔

شبلی کی کتاب کے نام سے تو میں یہ سمجھا تھا کہ کتاب بھی اتنی ہی بڑی ہو گی لیکن کتاب دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ شبلی جیسے مشہور بزرگ نے ایسی ایسی غلط باتوں کا بیان کیا ہے‘

پنجاب یونیورسٹی لاہور کے اورینٹیل کالج کے سابق پرنسپل اور نامور نقاد مرحوم ڈاکٹر عبادت بریلوی ’ اردو تنقید کے معیار‘ میںکہتے ہیں.

’شبلی نے موازنہ تو انیس و دبیر کا کیا ہے لیکن فقط انیس کے کلام کو خاص طور پر پیشِ نظر رکھا ہے اور اسی کی خصوصیات کو واضع کرنے کی کوشش کی ہے.‘

ڈاکٹر اکبر حیدر آبادی نے ’ شاعرِ اعظم مرزا سلامت علی دبیر‘ میں لکھا ہے.

’شبلی نے دبیر کی شاعرانہ عظمت کو ہر ممکن طریقے سے گھٹانے کی کوشش کی ہے۔علامہ شبلی نعمانی کو شاعرِ اعظم میں کوئی خوبی نظر نہیں آتی اور بلا وجہ ان پر اعتراضات کی بوچھار کرتے ہیں‘.

موازنہ انیس و دبیر کے موضوع پر ڈاکٹر تنویر علوی کہتے ہیں.

’ میر انیس شبلی کے پسندیدہ شاعر تھے اور وہ موازنہ لکھتے ہوئے قلم اٹھانے سے پہلے ہی انیس کی علمیت کے قائل ہو چکے تھے‘.

مختصر تاریخِ مرثیہ گوئی 1914 میں اردو اکیڈیمی سندھ نے شائع کی تھی جسکے مصنف حامد حسن قادری لکھتے ہیں.

’شبلی نے دبیر کے ساتھ انصاف نہیں کیا انہوں نے یا تو دبیر کے کلام کا کثرت سے مطالعہ نہیں کیا یا دیدہ و دانستہ انکے محاسن پر پردہ ڈالا‘.معروف استاد اور شاعر مرحوم سید عابد علی عابد کہتے ہیں.

’ شبلی کو تو دبیر میں کوئی خوبی اور انیس میں کوئی عیب ہی نظر نہیں آتا‘.

ڈاکٹر احسن فاروقی کی کتاب ’نوائے انیس‘ 1965 میں شائع ہوئی جس میں وہ فرماتے ہیں.

’ شبلی نے موازنہ میں ایک کو خوب چڑھایا ور دوسرے کو خوب گرایا ہے‘.

معروف محقق اور نقاد ڈاکٹر اسد اریب کہتے ہیں کہ.

اگر دبیر زندہ ہوتے تو مولانا شبلی پر ہتک عزت کا دعویٰ ضرور کرتے‘.پروفیسر احتشام حسین کہتے ہیں کہ.’ اگر یہ کتاب ذرا ور غور و فکر سے لکھی گئی ہوتی،ابواب کی ترتیب و تنظیم بہتر ہوتی ، تنقیدی تجزیے سے کام لیا گیا ہوتا اور مرثیہ نگاری کا جائزہ بحیثیت فن لیا گیا ہوتا تو موازنے کی اہمیت اور بڑھ جاتی‘.

ان اہلِ علم و دانش حضرات کی رائے کے بعد مجھ جیسے ہیچ مداں کی رائے کوئی اہمیت نہیں رکھتی تاہم اتنا ضرور عرض کرؤں گا کہ دبیر یا انیس شناسی کے لیئے یہ کیوں ضروری ہے کہ ہم صرف شبلی کے موازنے کو ہی بنیاد بنائیں اور شبلی ہی کی انگلی پکڑ کر چلیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خود عموماً اور محقیقن اورنقاد حضرات خصوصاً دبیر کے مراثی کا سنجیدہ مطالعہ کریں اور انکے وہ محاسن اجاگر کریں جن سے ماضی کے نقادوں نے بوجوہ صرف نظر کیا ہے.کیا یہ عجیب طرفہ تماشہ نہیں ہے کہ اس سارے تناظر میں ہمیشہ ذکر تو علامہ شبلی کا زیادہ ہوتا ہے جبکہ مرثیہ ، انیس اور دبیر پس منظر میں چلے جاتے ہیں.اب ضرورت یہ ہے کہ صرف پس منظر یا پیش منظر ہی نہیں بلکہ سارے منظر کو بدلا جائے. 


 
 


 
 


Urdu Mersia Ki Baqa zaban aur saqafat ki hifazat hai !